- Advertisement -

کالی کلی

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

کالی کلی

جب اُس نے اپنے دشمن کے سینے میں اپنا چھرا پیوست کیا اور زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کے سینے کے زخم سے سرخ سرخ لہو کا چشمہ پھوٹنے لگا اور تھوڑی ہی دیر میں وہاں لہو کا چھوٹا سا حوض بن گیا۔ قاتل پاس کھڑا اس کی تعمیر دیکھتا رہا تھا۔ جب لہو کا آخری قطرہ باہر نکلا تو لہو کی حوض میں مقتول کی لاش ڈُوب گئی اور وہ پھر سے اُڑ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ننھے ننھے پرندے اُڑتے، چوں چوں کرتے حوض کے پاس آئے تو اُن کی سمجھ میں نہ آیا کہ ان کا باپ یہ لال لال پانی کا خوبصورت حوض کیسے بن گیا۔ نیچے تہ میں ایک قطرہ خون اپنے لہو کی آخری بوند جو اس نے چوری چوری اپنے دل کے خفیہ گوشے میں رکھ لی تھی تڑپنے لگی۔ اُس کا یہ رقص ایسا تھا جس میں زرق برق پشوازوں کا کوئی بھڑکیلا پن نہیں تھا، معصوم بچے کے سے چہل تھے۔ وہ اچھل کود رہی تھی اور اپنے دل ہی میں خوش ہو رہی تھی۔ اس کو اس بات کا ہوش ہی نہیں رہا تھا کہ وہ چار چڑیاں جو حوض کے اُوپر بیقراری سے پھڑ پھڑاتی دائرہ بناتی اُڑ رہی ہیں ان کے دل ہانپ رہے ہیں اور بہت ممکن ہے وہ ہانپتے ہانپتے ان کے سینوں سے اُچھل کر حوض میں گر پڑیں۔ وہ اپنی خوشی میں مست تھی۔ اُوپر اُڑی ہوئی چڑیوں میں ایک چڑیا نے جو شکل و صورت کے اعتبار سے چڑا معلوم ہوتا تھا کہا

’’تم رو رہی ہو؟‘‘

چڑیا نے اپنی اڑان ہلکی کر دی، چنانچہ تیز ہوا میں لڑھکتے ہوئے اس نے اپنے ننھے سے نرم و نازک اور ریشم جیسے پر کو اپنی چونچ سے پھلا کر اپنی ایک آنکھ پونچھی اور جلدی سے اپنے دوسرے پروں کے اندر اس آنسو آلود پری کو چھپا لیا۔ دوسری آنکھ کے اس جل دیپ کو اس نے ایسے ہی ننھے سے مخملیں پر سے پھونک ماری، وہ فوراً راکھ بن کر حوض کی سرخ آنکھوں میں سرمے کی تحریر بن کر تیرنے لگی۔ حوض کی یہ تبدیلی دیکھ کر باقی تین چڑیوں نے پلٹ کر چوتھی چڑیا کی طرف دیکھا اور آنکھوں میں اس کی سرزنش کی اور ایک دم اپنے سارے پرسمیٹ لیے اور چشمِ زدن میں وہ حوض کے اندر تھیں۔ حوض کا لال لال پانی ایک لحظے کے لیے تھر تھرا اٹھا۔ اس نے زبردستی ان کی بند چونچوں میں اپنی بڑی چونچ سے اپنے خون کی ایک ایک بوند ڈالنے کی کوشش کی، جس طرح ماں باپ اپنے پیارے بچوں کے حلق میں چمچوں کے ذریعے سے دوا ٹپکاتے ہیں، مگر وہ نہ کھلیں۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کا کیا مطلب ہے چنانچہ اس کی آنکھوں سے اتنا ہی سفید پانی بہہ نکلا جتنا اس حوض میں لال تھا۔ جو وہ قاتل اس ایک لال بوند کے بغیر، جو اس کے اوپر اڑ رہی تھی اور اس سفید پانی سمیت، جو وہ اس کے وجود میں چھوڑ گیا تھا۔ اس نے یہ سفید آنسو اور بہانے چاہے مگر وہ بالکل خشک تھے۔ ایک صرف اس کی آنکھوں کی بصارت باقی تھی۔ وہ اسی پر قانع ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے حوض کے پانی کا رنگ بدل رہا ہے۔ اس کے لیے یہ بڑی تکلیف دہ بات تھی کہ جب قتل نہیں کیا گیا تھا۔ قتل کے بعد تو اُس نے سُنا تھا کہ سفید سے سفید خون بھی جیتا جاگتا سرخ ہو جاتا ہے۔ دن بدن حوض کا پانی نئی رنگ اختیار کرنے لگا شروع شروع میں تو وہ گرم گرم سرخ قرمزی تھا۔ تھوڑی دیر میں بھوسلا پن اس میں پیدا ہونے لگا یہ تبدیلی بڑی سست رفتار تھی۔ اُس نے سنا تھا کہ قدرت اٹل ہے وہ کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ وہ سوچتا کہ یہ قدرت کیسی ہے جو اس کی اپنے عناصر سے تخلیق کی ہوئی چیز کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اب اُسے کسی تصویر ساز کی پلیٹ بنا رہی ہے جس پر وہ ایک مرتبہ صاف اور شدھ رنگ لگا کر پھر اس پرسینکڑوں دوسرے رنگوں کی تہیں چڑھادیتا ہے اور بہت مسرور ہوتا ہے۔ اس میں مسرت انگیز بات ہی کیا ہے اور اس بات کے لیے کہ ایک بے گناہ کو قتل کروا دینا؟۔ یہ اور بھی زیادہ عجیب ہے۔ میں اگر اپنے قاتل کی جگہ ہوتا تو کیا کرتا؟۔ ہاں کیا کرتا؟ اسے اپنے ہاتھوں سے نقرئی تاروں والا ہار پہناتا۔ زربفت کی اس کی اچکن ہو، ہوخ سرتلے دار دستار اور اس طائر تازی پر سوار جس پر زربفت کی جھول ہو اور وہ اُس پر سوار ہو کر قدرت بانو کو دلھن بنا کر گھر لانے کے لیے روانہ ہو جائے۔ اس کے جلو میں صرف اس کے خون کے قطرے ہوں۔ وہ سوچتا کتنی شاندار سواری ہوتی جو آج تک کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ وہ ایک بہت اونچے درخت پر اپنا گھونسلا بناتا جس میں حجلہء عروسی کو بٹھاتا۔ اس کا چہرہ حیا کے باعث رنگ برنگ کے پروں کے گھونگھٹ کی اوٹ میں ہوتا۔ وہ اس نقاب کو بہت ہولے ہولے اٹھاتا۔ جوں جوں نقاب اوپر اٹھتی، اس کا دل نفرت و حقارت سے لبریز ہوتا جاتا۔ اس کے انتقامی جذبے کی آگ اور زیادہ تیز ہوتی جاتی جیسے اس کی نقاب کے پر اس پر تیل نچڑ رہے ہوں لیکن وہ اس جذبے کو اپنے دل میں وہیں دبا دیتا جیسے وہ مر جھائے ہوئے پھولوں کی روکھی سوکھی اور بے کیف پتیاں ہیں جنھیں کئی ننھی ننھی ناگ سپنیوں نے پھونکیں مار مار کر ڈس دیا ہو۔ شبِ عروسی میں اس نے اپنی دُلہن سے بڑی پیار اور محبت بھری باتیں کیں، ایسی باتیں جن کو سننے کے بعد سب پرندوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ یہ ایسا کلام ہے جو اگر فرشتے اور حوریں بھی اپنے سازوں پر گائیں تو خود کو عاجز سمجھیں اور بربطوں کے تار جھنجھلا اُٹھیں کہ یہ نغمہ ہم سے کیوں ادا نہیں ہو سکتا۔ آخر کار فرشتوں نے اپنے حلق میں اپنی اپنی دُلہنوں کی مانگ کے سیندور بھر لیے اور مرگئے۔ حوروں نے اپنے بربط توڑ ڈالے اور ان کے باریک تاروں کا پھندا بنا کر خودکشی کر لی۔ اُس کو اپنے یہ افکار بہت پسند آئے تھے۔ اس لیے کہ یہ غیب سے آئے ہیں۔ چنانچہ اس نے گانا شروع کیا۔ اس کا الحان واقعی الہامی تھا۔ اگر پرندوں کے ہجوم کو وہ صرف چند نغمے سناتا تو وہ یقیناً بے خودی کے عالم میں زخمی طیور کے مانند پھڑ پھڑا نے لگتیں اور اسی طرح پھڑ پھڑاتی پھڑ پھڑاتی قدرت کے اشجار کو پیاری ہو جاتیں۔ وہ اپنے تمام پتے اور اپنی کومل شاخوں کو نوچ کر ان کی لاشوں پر آرام سے رکھ دیتے۔ ادھر باغ کے سارے پھول اپنی تمام پتیاں ان پر نچھاور کر دیتے۔ کھلی اور ان کھلی گلیاں بھی خود کو اُن کی مجموعی تربت کی آرائش کے لیے پیش کر دیتیں۔ پھر تمام سرنگوں ہو کر انتہائی غم ناک سروں میں دھیمے دھیمے سروں میں شہیدوں کا نوحہ گاتیں۔ ساتوں آسمانوں کے تمام فرشتے اپنے اپنے آسمان کی کھڑکیاں کھول کر اس سوگ کے جشن کا نظارہ کرتے اور ان کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو جاتیں جو ہلکی ہلکی پھوار کی صورت میں ان خاکی شہیدوں کی پھولوں سے لدی پھندی تربت کو نم آلودہ کر دیتیں تاکہ اس کی تازگی دیر تک رہے۔ سُنا ہے کہ یہ تربت دیر تک قائم رہی۔ پھول جب باکل باسی ہو جاتے، پتے خشک ہو جاتے تو ان کی جگہ اپنے بدن سے نوچ نوچ کر آہستہ آہستہ اس تربت پر رکھ دیے جاتے۔ اُدھر دوسرے باغ میں جو اپنی خوبصورتی کے باعث تمام دنیا میں بہت مشہور تھا۔ ایک طاہر جس کا نام بلبل یعنی ہزار داستان ہے اپنے حسن اور اپنی خوش الحانی پر نازاں بلکہ یوں کہیے کہ مغرور تھا۔ باغ کی ہر کلی اس پر سو جان سے فدا تھی مگر وہ ان کو منہ نہیں لگاتا۔ اگر کبھی ازراہ تفریح وہ کبھی کسی کلی پر اپنی خوبصورت منقار کی ضرب لگا کر اُسے قدرت کے اصولوں کے خلاف پہلے ہی کھول دیتا تو اس غریب کا جی باغ باغ ہو جاتا، پر وہ شادی مرگ ہو جاتی۔ اور دل ہی دل میں دوسری کھلی ان کھلی کلیاں حسد اور رشک کے مارے جل بھن کر راکھ ہو جاتیں اور وہ کسی چٹان کی چوٹی کے سخت پتھر پر ہولے سے یوں بیٹھتا کہ اس پتھر کو اس کا بوجھ محسوس نہ ہو۔ اطمینان کر کے اس پتھر نے اُسے خندہ پیشانی سے قبول کر لیا ہے تو وہ موم کر دینے والا ایک حزنیہ نغمہ شروع کرتا۔ بہ فرط ادب اور تاثر کے باعث سرنگوں ہو جاتے۔ کلیاں سوچتیں کہ یہ کیا وجہ ہے کہ وہ ہمیں اپنے التفات سے محروم رکھتا ہے۔ ہم میں سے اکثر جل جل کے بھسم ہو گئیں۔ پر اس کو ہماری کچھ پروا نہیں۔ ایک سفید کلی اپنے شبنمی آنسو پونچھ کر کہتی ہے

’’ایسا نہ کہو بہن اس کو ہماری ہر ادا نا پسند ہے‘‘

کالی کلی کہتی۔

’’تو سفید جھوٹ بولتی ہے۔ میری طرف کبھی آنکھ اُٹھا کر دیکھ۔ دونوں دیدے پھوڑ ڈالوں۔ ‘‘

کاسنی کلی کو دُکھ ہوتا :

’’ایسا کرو گی تو تم کہاں رہو گی؟‘‘

سفید کلی طنزیہ انداز میں اس مغرور پرندے کی طرف سے جواب دیتی۔

’’اس کے لیے دنیا کے تمام باغوں کی کلیوں کے منہ کھلے ہیں۔ وہ نیلے آسمان کے نیچے جہاں بھی چاہے اپنے حسین خیمے گاڑ سکتا ہے۔ ‘‘

کالی کلی مسکراتی۔ یہ مسکراہٹ سنگ اسود کے چھوٹے سے کالے تریڑے کے مانند کھلتی۔

’’سفید کلی نے ٹھیک کہا ہے۔ خواہ مجھے خوش کرنے کے لیے ہی کہا ہو۔ میں یہاں کا بادشاہ ہوں‘‘

سفید کلی اور زیادہ نکھرگئی۔

’’حضور! آپ شہنشاہ ہیں۔ اور ہم سب آپ کی کنیزیں۔ ‘‘

کالی کلی نے زور سے اپنے پرپھڑ پھڑائے جیسے وہ بہت غصے میں ہے۔

’’ہم میں مجھے شامل نہ کرو۔ مجھے اس سے نفرت ہے۔ ‘‘

جونہی کالی کلی کی زبان سے یہ گستاخانہ الفاظ نکلے، سب چڑیاں ڈر کے مارے پھڑ پھڑاتی ہوئی وہاں سے اُڑ گئیں۔ ایک صرف کالی کلی باقی رہ گئی۔ اُس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس چٹان کو نہ دیکھا جس کے ایک کنگرے کی نوک پر وہ اکڑ کر کھڑا تھا۔ کالی کلی اس کے قدموں میں تھی۔ اپنی اس بے اعتنائی اور رعونت کے ساتھ۔ حسین و جمیل بلبل کو اس بے اعتنائی اور رعونت سے پہلی مرتبہ دو چار ہونا پڑا تھا۔ اُس کے وقار کو سخت صدمہ پہنچا، چٹان سے نیچے اُتر کر وہ ہولے ہولے جیسے ٹہل رہا ہے، کالی کلی کے قریب سے گزرا گویا وہ اس کا موقع دے رہا ہے کہ تم نے جو غلطی کی ہے درست کر لو۔ پر اُس نے اس فیاضانہ تحفے کو ٹھکرا دیا۔ اس پر بلبل اور جھنجھلایا اور مڑ کر کالی کلی سے مخاطب ہوا۔

’’ایسا معلوم ہوتا ہے، تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ ‘‘

کالی کلی نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔

’’ایسی تم میں کون سی خوبی ہے جو کوئی تمھیں یاد رکھے۔ تم ایک معمولی چڑے ہو، جو لاکھوں یہاں پڑے جھک مارتے ہیں‘‘

بلبل سراپا عجز ہو گیا۔

’’دیکھو، میں اس باغ کا تمام حسن تمہارے قدموں میں ڈھیر کرسکتا ہوں‘‘

کالی کلی کے ہونٹوں پر کالی طنزیہ مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

’’میں رنگوں کے بے ڈھب، بے جوڑ رنگوں کے ملاپ کو حسن نہیں کہہ سکتی۔ حسن میں یک رنگی اور یک آہنگی ہونی چاہیے۔ ‘‘

’’تم اگر حکم دو تو میں اپنی سرخ دم نوچ کر یہاں پھینک دوں گا۔ ‘‘

’’تمہاری سرخ دُم کے پر سرخاب کے پر تو نہیں ہو جائیں گے۔ رہنے دو اپنی دم میں۔ میری دُم دیکھتے رہا کرو، جو سنگ اسود کی طرح کالی ہے اور آبنوس کی طرح کالی اور چمکیلی۔ ‘‘

یہ سُن کر وہ اور زیادہ جھنجھلا گیا اور سوچے سمجھے بغیر کالی کلی سے بغل گیر ہو گیا۔ پھر فوراً ہی پیچھے ہٹ کر معذرت طلب کرنے لگا،

’’مجھے معاف کر دینا۔ باغ کی مغرور ترین حسینہ‘‘

کالی کلی چند لمحات بالکل خاموش رہی، پھر اُس کے بعد ایسا معلوم ہوا کہ رات کے گھپ اندھیرے میں اچانک دو دیے جل پڑے ہیں۔

’’میں تمہاری کنیز ہوں پیارے بلبل ‘‘

بُلبل نے چونچ کا ایک زبردست ٹھونگا مارا اور بڑی نفرت آمیز نا امیدی سے کہا۔

جا، دُور ہو جا، میری نظروں سے۔ اور اپنے رنگ کی سیاہی میں ساری عمر اپنے دل کی سیاہی گھولتی رہ۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو