عالمگیریت کے اثرات اور چیلنجز
ایک اردو تحریر از یوسف صدیقی
عالمگیریت بظاہر ایک ایسا لفظ ہے جو دنیا کو قریب لانے، فاصلے مٹانے اور انسان کو انسان سے جوڑنے کی علامت ہے، لیکن اس کے پس منظر میں طاقت، سیاست، معیشت اور تہذیب کی وہ تمام پرتیں بھی شامل ہیں جو انسانیت کو بیک وقت ترقی اور بحران دونوں کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ موجودہ دور میں یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ عالمگیریت ایک ایسی حقیقت بن چکی ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ اب یہ ہر ملک، ہر قوم اور ہر فرد کی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے یہ عمل مزید اہم ہو جاتا ہے، کیونکہ ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ترقی اور زوال دونوں کے امکانات موجود ہیں۔
عالمگیریت کا سب سے پہلا اور نمایاں اثر معیشت پر ہوا ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک اپنی معیشت کو مکمل طور پر اندرونی ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھا سکتا۔ سرمایہ کاری، تجارت اور روزگار سب عالمی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھی عالمی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصار کرتا ہے۔ ان اداروں کی شرائط ہمارے بجٹ، ہماری پالیسیوں اور ہمارے فیصلوں کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔ یہ صورتحال خودمختاری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ مثال کے طور پر، جب ہم قرض لیتے ہیں تو ہمیں بجلی، گیس یا دیگر اشیاء پر سبسڈی ختم کرنا پڑتی ہے، جو عام آدمی کے لیے مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ یوں عالمی معیشت کے دھارے میں شامل ہونا ایک طرف ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف غربت اور مہنگائی کو بھی بڑھا دیتا ہے۔
پاکستانی معیشت کے حوالے سے ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی برآمدات کو متنوع نہیں بنا سکے۔ عالمگیریت کی وجہ سے دنیا کی منڈیوں میں سخت مقابلہ ہے۔ چین، بھارت اور بنگلہ دیش نے ٹیکسٹائل کے میدان میں جو ترقی کی ہے، اس نے ہماری صنعت کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ہماری صنعت توانائی کے بحران، پرانی ٹیکنالوجی اور پالیسیوں کی ناکامی کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ کھونے لگی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور ہماری افرادی قوت دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر رہی ہے۔ برین ڈرین ہماری معیشت اور معاشرت دونوں کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
میڈیا کے اثرات پر بات کرتے ہوئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ صرف معلومات دینے یا تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ انسانی ذہنوں کو تشکیل دینے والی سب سے بڑی قوت بن چکا ہے۔ عالمگیریت نے میڈیا کو ایک عالمی پلیٹ فارم بنا دیا ہے جہاں خبر کی سرحدیں ختم ہو گئی ہیں۔ اب ایک پاکستانی نوجوان صرف اپنے ملک کے چینلز نہیں دیکھتا بلکہ نیٹ فلکس، یوٹیوب اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ اس کے ذہن میں جو تصویریں، خیالات اور رویے پروان چڑھتے ہیں وہ براہِ راست عالمی ثقافت سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عالمگیریت ہمارے مقامی اقدار اور قومی بیانیے کے لیے ایک چیلنج بنتی ہے۔
ثقافتی اثرات عالمگیریت کے سب سے زیادہ پیچیدہ پہلو ہیں۔ انسان کی تہذیب صدیوں کی روایات، زبان، موسیقی، لباس اور طرزِ زندگی سے مل کر بنتی ہے۔ مگر جب مغربی ثقافت اپنی فلموں، ڈراموں، اشتہارات اور موسیقی کے ذریعے پوری دنیا پر چھا جاتی ہے تو مقامی تہذیبیں دباؤ میں آ جاتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مغربی فیشن اور انگریزی زبان کو کامیابی اور ترقی کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ نوجوان نسل اپنی زبان کو کم اہمیت دیتی ہے اور مغربی انداز کو اپنانا فخر سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو یا مقامی زبانوں کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔
یہ صورتحال صرف زبان تک محدود نہیں بلکہ کھانے پینے، رہن سہن اور خاندانی نظام تک پھیل چکی ہے۔ جہاں پہلے خاندان کے افراد ایک ساتھ بیٹھ کر کھانے کھاتے تھے، وہاں اب فاسٹ فوڈ کلچر نے جگہ لے لی ہے۔ جہاں پہلے موسیقی قوالیوں، لوک گیتوں اور کلاسیکی راگوں پر مشتمل تھی، وہاں اب مغربی راک اور پاپ موسیقی چھا رہی ہے۔ اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام بھی متاثر ہو رہا ہے۔ مغربی انفرادیت نے اجتماعی اقدار کو کمزور کر دیا ہے۔ لوگ اپنی آزادی کو خاندان اور برادری سے زیادہ اہم سمجھنے لگے ہیں۔ یہ سب وہ اثرات ہیں جو عالمگیریت نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے پر ڈالے ہیں۔
سیاسی میدان میں بھی عالمگیریت کے اثرات گہرے ہیں۔ دنیا اب ایک دوسرے سے کٹی ہوئی ریاستوں کا مجموعہ نہیں رہی بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی اکائی ہے۔ ایک ملک میں ہونے والا سیاسی بحران دوسرے ملک کو بھی متاثر کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاست بھی عالمی دباؤ سے آزاد نہیں۔ امریکہ، چین، سعودی عرب اور دیگر عالمی طاقتیں ہمارے داخلی معاملات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے ہماری معیشت پر دباؤ ڈال کر ہمارے سیاسی فیصلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یوں ہماری خودمختاری ایک مسلسل سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔
عالمگیریت نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعرے کو بھی ایک نیا رنگ دیا ہے۔ مغربی ممالک اپنی مرضی کے مطابق یہ طے کرتے ہیں کہ کہاں جمہوریت کی حمایت کرنی ہے اور کہاں آمریت کو برداشت کرنا ہے۔ عراق اور افغانستان میں ”جمہوریت” کے نام پر مداخلت کی گئی، لیکن دوسری طرف ایسے ممالک کو مکمل حمایت دی جاتی ہے جہاں جمہوری اقدار موجود ہی نہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عالمگیریت کا سیاسی ایجنڈا اکثر طاقتور ریاستوں کے مفاد کے مطابق ہوتا ہے، نہ کہ عالمی انصاف یا برابری کے اصول کے مطابق۔
عالمگیریت کا ایک اور بڑا چیلنج معیشت اور سیاست کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے میدان میں بھی سامنے آتا ہے۔ دنیا بھر میں صنعتی ترقی نے ماحول کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ فضائی آلودگی، پانی کی کمی، جنگلات کی کٹائی اور موسمی تغیرات اب کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مشترکہ بحران ہیں۔ پاکستان بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔ برفانی تودے پگھل رہے ہیں، سیلاب اور خشک سالی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، کسان اپنی فصلوں کو بچانے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمگیریت نے ہمیں ماحولیات کے معاملے میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا ہے۔
عالمگیریت نے نوجوانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ان کے ذہنوں کو نئی دنیا سے جوڑ دیا ہے۔ وہ اب نہ صرف اپنے ملک کے مسائل سے آگاہ ہیں بلکہ دنیا بھر کے مسائل اور تحریکوں کو بھی جانتے ہیں۔ عرب اسپرنگ ہو یا بلیک لائیوز میٹر، کلائمیٹ چینج کی تحریک ہو یا فلسطین کی آواز، نوجوان اس سب سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ شعور ایک مثبت پہلو ہے کیونکہ نوجوان اب زیادہ فعال اور باخبر ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ نفسیاتی دباؤ کا بھی شکار ہیں۔ ایک طرف انہیں مغربی طرزِ زندگی کی کشش اپنی طرف کھینچتی ہے اور دوسری طرف مقامی اقدار اور روایات انہیں واپس بلاتی ہیں۔ اس کشمکش نے نوجوانوں میں بے چینی اور الجھن پیدا کر دی ہے۔
نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ روزگار ہے۔ عالمگیریت نے نئی ٹیکنالوجی فراہم کی تو کئی پرانی نوکریاں ختم بھی ہو گئی ہیں۔ آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت نے مزدوروں اور درمیانے طبقے کی نوکریاں چھین لیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں پہلے ہی بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے، یہ مسئلہ اور بڑھ گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان بیرونِ ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ برین ڈرین ہماری ترقی کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔
عورتوں پر عالمگیریت کے اثرات بھی ملے جلے ہیں۔ ایک طرف خواتین کے لیے تعلیم اور ملازمت کے دروازے کھلے ہیں، وہ عالمی سطح پر آگے بڑھ رہی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ پاکستان کی خواتین بھی کھیلوں، سیاست اور تعلیم میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ لیکن دوسری طرف مغربی آزادی کے ماڈل کو اندھا دھند اپنانا ہمارے معاشرتی اور مذہبی ڈھانچے کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ عورت کے حقوق ضرور ہونے چاہئیں، لیکن وہ ہماری اقدار اور معاشرتی توازن کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اگر ہم مغربی آزادی کو بلا روک اپنائیں گے تو خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔
جرائم اور انتہا پسندی کے حوالے سے بھی عالمگیریت نے نئے راستے کھول دیے ہیں۔ آج ایک مجرم صرف اپنے علاقے یا ملک تک محدود نہیں رہا بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے وہ عالمی سطح پر جرائم کر سکتا ہے۔ سائبر کرائم، آن لائن فراڈ، دہشت گرد تنظیموں کا عالمی نیٹ ورک، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ—یہ سب عالمگیریت کے سائے میں اور بھی مضبوط ہوئے ہیں۔ ایک ملک میں بیٹھ کر دوسرے ملک کے نظام کو ہیک کرنا اب معمول بن چکا ہے۔ اسی طرح انتہا پسند گروہ اپنے نظریات کو عالمی سطح پر پھیلا سکتے ہیں۔ یہ وہ چیلنج ہے جس سے نمٹنا صرف ایک ملک کے بس کی بات نہیں بلکہ مشترکہ عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔
عالمگیریت نے جہاں دنیا کو قریب کیا ہے وہاں خطرات کو بھی عالمی سطح پر یکجا کر دیا ہے۔ پہلے جرائم کی نوعیت زیادہ تر مقامی تھی، مگر آج دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور سائبر حملے سرحدوں کو نہیں مانتے۔ سب سے زیادہ نقصان ان ممالک کو ہوتا ہے جو پہلے ہی سیاسی اور معاشی طور پر کمزور ہیں۔ پاکستان کو بھی دہشت گردی نے کئی دہائیوں تک جکڑے رکھا، اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے ہمارے خطے کو استعمال کرتی رہیں۔ افغانستان کی جنگ، ڈرون حملے اور عالمی ایجنڈے اس بات کے ثبوت ہیں کہ کس طرح ایک ملک کے فیصلے پوری دنیا کے امن کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یہ صورتحال عالمی انصاف کے سوال کو جنم دیتی ہے۔ عالمگیریت کے اس دور میں سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ مساوات اور انصاف کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، مگر عملی طور پر طاقتور ممالک اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں۔ عالمی ادارے جیسے اقوامِ متحدہ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بظاہر سب کے لیے ہیں، لیکن ان کے فیصلے زیادہ تر طاقتور ممالک کے حق میں ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک اکثر قرضوں اور شرائط کی زنجیروں میں جکڑے رہتے ہیں۔ یہ زنجیریں ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے سے روکتی ہیں۔ ہم اپنی پالیسیاں عوام کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ عالمی دباؤ کے تحت بناتے ہیں۔ یہ وہ سب سے بڑا چیلنج ہے جو عالمگیریت نے ہماری خودمختاری کو دیا ہے۔
ان سب مسائل کے باوجود عالمگیریت کو مکمل طور پر منفی کہنا درست نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہمیں ایسے مواقع بھی دیے ہیں جو پہلے کبھی دستیاب نہیں تھے۔ تعلیم کے شعبے کو ہی لے لیجیے۔ آج ایک پاکستانی طالب علم آن لائن کورسز کے ذریعے ہارورڈ یا آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں کے لیکچر سن سکتا ہے اور دنیا بھر کی نئی تحقیق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح کاروبار کے میدان میں بھی آن لائن مارکیٹ پلیس نے ہمارے تاجروں کو عالمی خریداروں تک پہنچا دیا ہے۔ ایک چھوٹا سا کاروباری اپنی مصنوعات ایمازون یا علی بابا پر فروخت کر سکتا ہے۔ یہ مواقع پاکستان کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھول سکتے ہیں اگر ہم ان سے صحیح فائدہ اٹھائیں۔
اسی طرح صحت کے میدان میں بھی عالمگیریت نے ہمیں نئے امکانات دیے ہیں۔ دنیا کے ایک کونے میں کی گئی تحقیق دوسرے کونے تک فوراً پہنچ جاتی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے واضح کر دیا کہ پوری دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ ویکسین کی تیاری اور اس کی تقسیم ایک عالمی مسئلہ بن گئی۔ پاکستان جیسے ممالک کو بھی اس عالمی تعاون سے فائدہ ملا۔ تاہم، طاقتور ممالک نے ویکسین کی فراہمی میں خود غرضی دکھائی اور غریب ممالک کو پیچھے دھکیل دیا۔ یہ وہ دوہرا معیار ہے جو عالمگیریت کے نظام کا خاصہ بن چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم اس صورتحال میں کیا کریں؟ کیا ہم عالمگیریت کو قبول کر لیں یا اس کی مخالفت کریں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس عمل کو روک نہیں سکتے۔ دنیا جتنی آگے بڑھ چکی ہے، اب سرحدیں مزید بند نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ایک عالمی دنیا کا حصہ ہیں۔ مگر ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سیکھنا ہوگا کہ اپنی اقدار، اپنی ثقافت اور اپنی خودمختاری کو کیسے محفوظ رکھیں۔ یہی اصل حکمتِ عملی ہے جس کی آج ضرورت ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ وہ تعلیم پر بھرپور سرمایہ کاری کرے۔ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو نوجوان نسل کو عالمگیریت کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو سمجھنے کے قابل بنائے گا۔ اگر ہمارے نوجوان صرف مغربی ثقافت کو اندھا دھند اپنائیں گے تو وہ اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے۔ لیکن اگر وہ عالمی علم اور ٹیکنالوجی کو اپنی تہذیب کے ساتھ جوڑیں گے تو دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی توازن ہمارے لیے ترقی کا راستہ کھول سکتا ہے۔
اس کے ساتھ پاکستان کو اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ایک کمزور معیشت ہمیشہ عالمی دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ اگر ہم اپنی صنعت، زراعت اور ٹیکنالوجی کو ترقی دیں گے تو ہم عالمی طاقتوں کے سامنے زیادہ اعتماد کے ساتھ کھڑے ہو سکیں گے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ خود کفالت کے بغیر ہم کبھی آزاد نہیں ہو سکتے۔ عالمگیریت کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنا ہوگا۔
سیاست کے میدان میں ہمیں ایک متوازن خارجہ پالیسی اپنانی ہوگی۔ ہمیں کسی ایک طاقت کے زیرِ اثر آنے کے بجائے سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ اگر ہم صرف ایک ملک پر انحصار کریں گے تو ہم اس کے دباؤ میں آ جائیں گے۔ مگر اگر ہم اپنی خودمختار پالیسی اپنائیں گے تو ہم عالمی دنیا میں ایک باعزت مقام حاصل کر سکیں گے۔
ثقافتی سطح پر ہمیں اپنی زبان اور روایات کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اردو اور مقامی زبانوں کو ترقی دینا ضروری ہے تاکہ ہماری شناخت زندہ رہے۔ میڈیا کے ذریعے ہمیں اپنی اقدار کو اجاگر کرنا ہوگا۔ فلموں، ڈراموں اور موسیقی میں ہمیں اپنی تہذیب کو پروموٹ کرنا ہوگا تاکہ نوجوان نسل کو مغربی اثرات کے ساتھ ساتھ اپنی جڑوں کا بھی علم ہو۔
آخر میں، یہ کہنا درست ہوگا کہ عالمگیریت ایک دو دھاری تلوار ہے۔ یہ مواقع بھی فراہم کرتی ہے اور خطرات بھی پیدا کرتی ہے۔ اصل امتحان یہ ہے کہ ہم ان مواقع سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں اور خطرات سے کیسے بچتے ہیں۔ اگر ہم نے حکمتِ عملی کے ساتھ تعلیم، معیشت، سیاست اور ثقافت کے میدان میں قدم بڑھایا تو ہم عالمگیریت کے دور میں نہ صرف اپنی شناخت بچا سکیں گے بلکہ ترقی بھی کر سکیں گے۔ لیکن اگر ہم نے غفلت برتی تو ہم دوسروں کے مفادات کا ایندھن بن جائیں گے۔ یہی وہ فیصلہ ہے جو پاکستان اور پوری مسلم دنیا کو آج کرنا ہے۔
یوسف صدیقی





