آکسفورڈ پہنچے تو سمر قند و بخارا بہت یاد آئے۔ یونیورسٹی کے صدیوں پرانے کالجوں میں نوجوان دمکتے چہروں کو دیکھا تو ریگستان سکوائر کے ویران مدارس آنکھوں میں گھومنا شروع ہو گئے۔ ان کالجوں میں موجود خوبصورت چیپل دیکھے تو دھیان مدارس کے ساتھ موجود غیر آباد مساجد کے منقش اور رنگین گنبدوں میں الجھا رہا۔
دونوں کا طرز تعمیر ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے لیکن ان دونوں میں طلبا کے لیے لائبریریاں، لیکچر ہال اور رہائش کے کمرے موجود ہیں۔ دونوں کی وسعت ان کی علمی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن کیا ہوا کہ آج ایک ویران اور دوسرا دنیا کی نمبرون یونیورسٹی کی مسند پر موجود ہے؟
بہت پرانی کہانی ہے۔ حافظ شیرازی کا امیر تیمور سے مکالمہ جاری تھا۔ بتان وہم و گماں مال و دولت دنیا کی علمی قدر و منزلت سے روکشی تھی۔ فقیر کے پر سکون چہرے پر ظالم فاتح کی شوکت و ہیبت اور پر شکوہ تاج و تخت کا دبدبہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ علم و ادب کے پہاڑ کے آگے سب کچھ ہیچ تھا۔ اس کا طنز تیمور کا لاجواب کر گیا۔
اگر آن ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را
بہ خال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
شیرازی معشوق کے رخسار کے تل کی خوبصورتی کا اندازہ تو کوئی کر ہی نہیں سکتا لیکن اس کی ان شہروں سے نسبت ان کی علمی عظمت کا لازوال بیان ہے۔
سامانیوں کے دور عروج میں بخارا اسلامی دنیا میں علم و ادب کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ 850 ء میں یہ شہر دولت سامانیہ کا دار الحکومت قرار پایا۔ اس دور میں موجود مدارس کی عظمت و خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چنگیز خاں نے بادشاہ کے محلات سمجھ کر ان پر حملہ کیا تھا۔
چنگیز خاں کے بعد اور خصوصی طور پر تیموری دور حکومت میں مدارس پھر سمرقند و بخارا کی پہچان بن گئے۔ بخارا کے مدارس نویں صدی سے پہلے کے ہیں اور آکسفورڈ میں دسویں صدی کے اختتام میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔
انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی مذاہب علم کی بنیاد رہے ہیں۔ اس شعبے میں مذہبی عبادت گاہوں کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ دیر ہو یا حرم علم کے سوتے انہیں سے پھوٹتے رہے ہیں۔
آکسفورڈ میں چرچ اور کالجز سولہویں صدی میں بنے لیکن بخارا کا کلیان سکوائر صدیوں پہلے سے علم و حکمت کا مینارہ بن کر روشنی بکھیر رہا تھا۔ آکسفورڈ کا سب سے پرانا سکول جو کہ اب تک موجود ہے 1427 سے 1483 کے درمیان بننے والا ڈیوینٹی سکول ہے اور سمرقند کے ریگستان سکوائر میں موجود الغ بیگ مدرسہ 1420 میں مکمل ہو چکا تھا۔ جس میں اعلی سائنسدان، ریاضی دان اور ماہر فلکیات ایران اور دوسرے ممالک سے بلا کر اساتذہ کے طور پر متعین کیے گئے تھے۔
اسی دور میں الغ بیگ نے ایک جدید رصد گاہ بنائی جس نے شمسی سال کا دورانیہ متعین کیا۔ اس کے اور موجودہ دور کے جدید آلات سے ماپنے گئے دورانیے میں صرف اٹھاون سیکنڈ کے فرق ہے۔ امیر تیمور کا حافظ قرآن پوتا، ماور النہر کی مملکت کا یہ شہزادہ، جدید علوم کا سرپرست، خود ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھا۔ وہ علما کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سائنس، فنون لطیفہ اور اپنی مملکت کی ثقافتی ترقی کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ علم کا حصول اسلام کے ہر پیروکار مرد اور عورت پر فرض ہے۔ وہ سائنسی حقیقتوں کو پانا چاہتا تھا۔ یہ بات مذہبی علما کو نہیں بھاتی تھی۔ اس کے اپنے بیٹے نے ان کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔ ان علوم کو مذہب مخالف قرار دے کر اسے قتل اور رصد گاہ کو ملیا میٹ کر دیا۔ کئی اساتذہ مارے گئے۔
ماہر فلکیات علی قشجی اپنے اہل خانہ کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور اپنے ساتھ تحقیقات کی دستاویزات بھی بچا لایا۔ قسطنطنیہ پہنچ کر انہیں سلطان مہمت دوئم کے حوالے کیا جس نے ان کو شائع کروایا۔ وہاں سے یہ تحقیقات یورپ پہنچیں اور تقریباً دو صدیوں کے بعد ان کا ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے پبلش کیا۔
جدید علوم کی سرپرستی کا یہی فرق سمر قند و بخارا کی علمی حیثیت کو ختم اور آکسفورڈ کو ترقی کی منازل پر گامزن کر گیا۔
دریائے آمو کی سرزمین نے مسلمانوں کو صحیح بخاری اور ترمذی جیسی مستند کتابیں دیں، ایک ہزار سال تک مذہبی و روحانی رہنمائی اور سیاسی قیادت مہیا کی لیکن وہاں کے لوگوں کی مذہبی جنونیت اپنے مذہب کو بھی نہ بچا سکی جبکہ آکسفورڈ کی سائنسی ترقی اور علم و حکمت کی سرپرستی ان کے مذہب کا سہارا بن گئی۔
2013 میں جب میں نے ازبکستان کا سفر کیا تو دیکھا کہ تمام بڑی بڑی مساجد ویران پڑی تھیں۔ وہاں کوئی عاشق سجدہ ریز نظر نہیں آتا تھا اور آکسفورڈ کے چرچ آج بھی آباد ہیں۔ ان کی گھنٹیاں سر شام آکسفورڈ کی فضاؤں میں جلترنگ بکھیرتی ہیں اور سمرقند کے میناروں سے کسی مؤذن کی خوش لحن آواز خدا کی کبریائی بیان کرتی سنائی نہیں دیتی۔ بخارا کی سب سے قدیم مسجد میں قالین بکتے ہیں اور آکسفورڈ کا سب سے پرانا چرچ عوام کی قدیم مذہبی و روحانی روایات کا امین ہے۔ روزانہ عبادت ہوتی ہے۔ ہر سات سال بعد شہر کے معززین جمع ہو کر یہاں سے شہر کے دورے کا آغاز کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمارے شہر کی قدیم حدود، روایات اور نشانیاں بالکل صحیح حالت میں برقرار ہیں۔
تاج محل سے پہلے محبت کا سب سے بڑا تحفہ قرار دی جانے والی بی بی خانم مسجد کی دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، آوارہ گردوں نے ان سے راستے بنا لیے ہیں ادھر کنواری ماں کے کلیسا کی بلند و بالا عمارت ہائی سٹریٹ میں پورے وقار اور تمکنت سے ایسے کھڑی ہے کہ جیسے دنیا بھر کے بادشاہ اس کی چوکھٹ کو چوم کر سر جھکائے اذن دخول کے منتظر ہیں۔
ریاضی و سائنس کے سرپرست اور فلکیات و ستارہ شناسی کے عاشق امیر تیمور کے پوتے مرزا الغ بیگ کی رصد گاہ صرف انتیس سال بعد زمین بوس کر دی گئی اور کئی صدیوں تک گرد و غبار کے پہاڑ تلے دفن رہی۔ آج اس کے کھنڈرات ہمارے لیے باعث شرمندگی ہیں اور آکسفورڈ کی لیبارٹریز جدید دور کی مشکلات کا حل مہیا کر رہی ہیں۔ آکسفورڈ کے ہر کالج میں جگہ جگہ دیواروں پر ان میں خدمات سرانجام دینے والوں کے نام کندہ ہیں، کلیساؤں میں پادریوں کی یاد میں کتبے آویزاں ہیں اور سمرقند و بخارا کی علم گاہوں میں داخل ہوتے ہی نظر آنے والی بزرگان دین کی بڑی بڑی پختہ قبروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ امام بخاری کی قبر مبارک بھی ایک لمبے عرصہ تک عوام الناس کی نظروں سے اوجھل رہی اور ایک کمیونسٹ لبنانی شاعر کی کوششوں سے اس کو تلاش کر کے بحال کیا گیا۔
سمرقند کے ’شاہ زندہ‘ قبرستان میں دفن صحابی رسول، پیغمبر اسلام کے غسال، چچیرے بھائی کی قبر مبارک پر دو نفل ادا کرنے کی اجازت نہیں تھی اور آکسفورڈ کے گرجا گھروں میں روزانہ دعائیہ تقریبات ہوتی ہیں۔
جدیدیت کے پیرو کاروں کو وہاں بھی زندہ جلا دیا گیا تھا لیکن ان کی یادگاریں قائم کر کے ان کو رہبر مان لیا گیا ہے اور ادھر الغ بیگ کی قبر جو کہ روسی ماہرین آثار قدیمہ نے کچھ دہائیاں قبل امیر تیمور کے مقبرے میں ہی ڈھونڈ نکالی تھی، ویران پڑی ہے۔ اس عقابی صفت جنگجو حکمران اور تیموری شہزادے کا نشیمن واقعی ہی زاغوں کے تصرف میں رہتا ہے۔
صدیوں پہلے ابھری جہالت ہم میں ابھی تک پنپ رہی ہے۔ آج بھی مذہب سیاسی لوگوں کا ہتھیار بنا ہوا ہے اور ہر عقلی و سائنسی و تخلیقی سوچ رکھنے والے کو مذہب مخالف الزامات کا سامنا ہے۔ ہمیں سوچنا پڑے گا۔
سوے دیر دیکھو اجالا بہت ہے
اہل حرم، یہ خفت مٹانا پڑے گی
اندھیرے مٹا نہ سکا نور خورشید
شمع اک نئی اب جلانا پڑے گی
سید محمد زاہد