آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزرحمت عزیز خان

سٹیٹ بینک : شرحِ سود

از ڈاکٹر رحمت عزیز خان

Salampakistan logo

سٹیٹ بینک:شرحِ سود 11 فیصد پر برقرار

پاکستان کی معیشت ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں فیصلوں کا اثر نہ صرف مالیاتی اداروں بلکہ عوام کی روزمرہ زندگی پر بھی گہرا ہوتا جارہا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے حالیہ مانیٹری پالیسی میں شرحِ سود کو 11 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے مانیٹری پالیسی کمیٹی کی مشاورت کے بعد کیا ہے اور اس پر اتفاق رائے بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
پاکستان میں شرحِ سود کی پالیسی ہمیشہ سے ملکی و عالمی مالیاتی حالات کے مطابق تبدیل ہوتی رہی ہے۔ 1990 کی دہائی میں یہ شرح 14 سے 16 فیصد تک پہنچی تھی، جب کہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے دوران بھی شرحِ سود کو بڑھا کر 15 فیصد تک کیا گیا تاکہ افراطِ زر پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم بعد ازاں معاشی دباؤ، بیرونی قرضوں اور اندرونی مہنگائی کے رجحانات نے اس پالیسی کو محتاط انداز میں اپنانے پر مجبور کیا۔
گزشتہ چند برسوں میں، خاص طور پر 2022 تا 2024 کے دوران، پاکستان نے 22 فیصد کی بلند ترین شرحِ سود دیکھی تاکہ بڑھتی مہنگائی اور کرنسی کے بحران کو روکا جا سکے۔ اب جب کہ مہنگائی کی شرح میں کچھ استحکام دکھائی دے رہا ہے، سٹیٹ بینک نے شرحِ سود کو کم کرکے 11 فیصد پر برقرار رکھا ہے، جو معاشی اعتماد کی بحالی کا عندیہ ہے۔
شرحِ سود برقرار رکھنے کے فیصلے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ جن میں سرفہرست مہنگائی میں کمی کا رجحان ہے۔سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق، مالی سال 2026 میں مہنگائی 6 سے 7 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ مالیاتی پالیسی مؤثر ثابت ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر 2025 تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ 282 سے 285 روپے کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرنسی مارکیٹ میں وقتی استحکام آ چکا ہے۔
شرحِ سود میں مزید کمی نہ کرنا بظاہر محتاط رویہ ہے، مگر کاروباری طبقے کے لیے یہ پیغام ضرور ہے کہ پالیسی اچانک تبدیل نہیں کی جائے گی۔ اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
عالمی سطح پر امریکی فیڈرل ریزرو سمیت دیگر مرکزی بینک بھی شرحِ سود میں کمی کے بجائے محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا یہ فیصلہ اسی عالمی رجحان کے مطابق ہے۔
اگرچہ یہ فیصلہ وقتی استحکام کا اشارہ دیتا ہے، لیکن پاکستان کی حقیقی اقتصادی ترقی کے لیے شرحِ سود کا بلند رہنا چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بینکاری شرح کے بلند ہونے سے قرض لینے کی لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے صنعتی پیداوار متاثر ہوتی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں۔
مزید یہ کہ اگر دسمبر 2025 تک شرحِ سود اسی سطح پر برقرار رہی تو حکومت کے قرضوں پر سود کی ادائیگی کا بوجھ بڑھ سکتا ہے۔ مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے اس پہلو پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر مہنگائی 7 فیصد سے نیچے آتی ہے اور کرنسی مستحکم رہتی ہے تو جون 2026 تک شرحِ سود میں کمی ممکن ہے۔ تقریباً 46 فیصد ماہرین نے اپنی رائے میں 10 فیصد تک کمی کی پیش گوئی کی ہے، جبکہ 27 فیصد نے سنگل ڈیجٹ میں جانے کی امید ظاہر کی ہے۔
سٹیٹ بینک کا یہ فیصلہ ایک محتاط مگر حساب شدہ اقدام ہے۔ یہ پالیسی نہ تو سختی کی علامت ہے اور نہ ہی نرمی کی، بلکہ ایک متوازن راستہ ہے جو معیشت کو غیر ضروری جھٹکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنایا گیا ہے۔
تاہم حقیقی کامیابی اس وقت ہوگی جب شرحِ سود میں بتدریج کمی کے ساتھ صنعتی پیداوار بڑھے، مہنگائی قابو میں رہے اور عوام کو معیشت کی بحالی کا عملی احساس ہو۔
پاکستان کی معیشت کو اب ایسے فیصلوں کی ضرورت ہے جو صرف کاغذی استحکام نہیں بلکہ حقیقی ترقی کی بنیاد بنیں۔ سٹیٹ بینک کا یہ اعلان اسی سمت میں ایک قدم ضرور ہے مگر سفر ابھی باقی ہے۔

ڈاکٹر رحمت عزیز خان

رحمت عزیز خان

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات، عدلیہ، جرائمز اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button