عاشق ہزار ہوں مگر اپنا کوئی نہ ہو
جیسے کوئی غزل تو ہو مطلع کوئی نہ ہو
سارے جہان میں کوئی تجھ سا نہیں ملا
دل بھی یہ چاہتا تھا کہ تجھ سا کوئی نہ ہو
چاہوں میں اس ادا سے ترا آئینہ بنوں
مجھ سے تری نگاہ میں اچھا کوئی نہ ہو
بھیجوں میں جس کی سمت کبوتر خیال کے
اس تک پیام لے کے پہنچتا کوئی نہ ہو
چادر سے ڈھانپوں سر یا بچھاؤں زمین پر
پیشانی خاک پر ہو مصلی کوئی نہ ہو
میں شکل دے رہی ہوں تخیل کے شخص کو
کیا ہو کہ جب گمان میں چہرہ کوئی نہ ہو
شہری ہیں وحشیوں سے گریزاں کچھ اس قدر
جنگل کا جیسے شہر سے رشتہ کوئی نہ ہو
ہم کو تو عشق نے ہی تماشا بنا دیا
اب اور زندگی میں تماشہ کوئی نہ ہو
نمرہ میں اپنے آپ سے اس شرط پر ملوں
مل کر بچھڑنے کا مجھے دھڑکا کوئی نہ ہو
نمرہ علی