آپ کا سلاماردو نظم
وقت نہیں ہے
رب کے سامنے جھکیں بھی تو کیسے وقت نہیں ہے
گناہوں کی معافی مانگیں تو کیسے وقت نہیں ہے
دنیاداری میں مصروف کردیا ہے ہم نے اپنے آپ کو
دینداری کا علم ہی نہیں ہو بھی کیسے وقت نہیں ہے
وہ خالق جو ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے ہمیں
اسےیاد بھی کرتے ہیں تو ایسے جیسے وقت نہیں ہے
حقوق اللہ اور حقوق العباد بھلا چکے ہیں ہم یہاں
علم نہیں کون کہاں جی رہا ہے کیسے وقت نہیں ہے
دھن دولت روپیہ پیسہ ہی سب کچھ ہے آج کل بس
پیار بانٹنا ہومحبت بانٹنا ہو تو جیسے وقت نہیں ہے
موت کا وقت مقرر ہے آئے گی اس نے آنا ہے یوسف
ملک الموت سے کہو گے بھی تو کیسے وقت نہیں ہے
محمد یوسف برکاتی