- Advertisement -

عمران خان کا فاشسٹ رویہ

سید زاہد کا ایک کالم

مقبولیت کا مزیدار میٹھا زہر انسان کو مغرور بنا دیتا ہے۔ موافق ہواؤں میں ابھرنے والے عوامی سیلاب کے تند و تیز دھارے کس کس کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں، مغرور انسان کو ان کی پروا بھی نہیں ہوتی۔ اس سیلاب بلا میں پلنے والا ’بطل زماں‘ تصوراتی ریاست کا خواب مذہبی تڑکا لگا کر بیچنے لگے تو مخالفین کی گردنیں اڑانا بھی ثواب کہلاتا ہے۔ نسل در نسل استوار شدہ اصول، قانون اور ادارے، سب اس کی موجوں کی ٹھوکر پر ہوتے ہیں۔ ایسے سورما کی نیلی زبان صرف زہر اگلتی ہے اور شرفا کی عزت داغ دار ہو جاتی ہے۔ سچ کہا ملکہ سبا نے ”جب کسی علاقہ میں (وہ) داخل ہوتے ہیں تو اسے اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے معززین کو ذلیل بنا دیتے ہیں۔“ القرآن

سیاسی زبان میں ایسے ماحول کو فاشزم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

’الفا نسل‘ جوانی کی پیڑھی پر بیٹھی تو پوری دنیا میں ذہن سازی سوشل میڈیائی پہلوانوں کے ہاتھ آ چکی تھی۔ یہ ’ماہرین فن‘ روزانہ کچھ زہر آلودہ پوسٹیں سوشل میڈیا پر لگا کر دنیا میں انقلاب لانا چاہتے ہیں۔

یہ لوگ فاشزم کا ایندھن ہیں۔ بوڑھے شاطر ان کچے ذہن کے لوگوں کو استعمال کر کے خود سورما بن جاتے ہیں۔ یہ ان کی پیروی کرتے ہوئے، ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر شرفا کی پگڑیاں اچھالتے ہیں لیکن جب بھی ان کو اپنی بے وقوفیوں کا حساب دینا پڑتا ہے، اکھڑے سانس بچپن کے دمہ کی یاد دلانے لگتے ہیں۔ پھر ان پہلوانوں کے آنسو اور رونا دھونا انقلاب کو بہا لے جاتا ہے۔

تحریک انصاف جمہوری پارٹی نہیں۔ اس کی بنیاد کوئی عام سیاسی تحریک بھی نہیں بلکہ یہ پارٹی فاشزم کے اصولوں پر چلتے ہوئے ایک انتہا پسند، متشدد اور بغاوت پسند شخصیت کی قیادت میں صرف خود کو فائدہ پہنچانے کے منشور پر عمل کر رہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ دوسری سیاست پارٹیوں اور ریاستی اداروں میں موجود اپنے تصوراتی دشمنوں کو سزا دینے کے لیے اقتدار پر قبضہ کرنے اور استعمال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

ان کا طلسماتی رن بیر ترکی کی مذہبی آمرانہ صدارت، ایران کی پاپائیت، چین کی نام نہاد جمہوریت اور ناروے ڈنمارک کے لادینی عوامی سیاسی بندوبست کی مثالیں دے کر یوٹوپین ’ریاست مدینہ‘ کی بنیادیں استوار کرنے کی دھوکا دہی کرتا ہے۔ اس نے پچھلے پونے چار سال میں اس بنیاد پر ایک اینٹ بھی نہیں رکھی اور اس بہانے حقیقی آزادی کے نئے نعرے کے ساتھ مخالفین کی گردن زنی کا شوق ابھی بھی دل میں سمائے بیٹھا ہے۔

اس تحریک کے متوالوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو پہلے سیاست اور سیاست دانوں سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ کبھی ووٹ ڈالنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ اس ملک پر ستر سال سے قابض ڈکٹیٹرز، ان کے حواری ججوں اور کفگیری افسروں نے ہمیشہ سیاستدانوں کو تختہ مشق بنایا ہے۔ ان سالوں میں تمام سرکاری وسائل عوام الناس کی ذہن سازی کرتے رہے ہیں کہ سیاست شرفا کا کام نہیں، اس میں صرف گندے لوگ ہی آتے ہیں۔ پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں یہ کام زیادہ زوروشور سے ہوا۔ وہ لوگ جن کی اس دور میں ذہن سازی کی گئی موجودہ ’الفا نسل‘ اس ’زی نسل‘ کی اولاد ہے۔

ان کے سروں میں صرف نفرت کا بھوسا بھرا ہوا ہے : ہر سیاست دان کے خلاف۔ اب نشانہ ان کے روحانی اتالیق ’جج اور جنرل‘ بھی بن رہے ہیں۔ سب ریاستی ادارے، قوانین اور مخالف سیاسی رہنما ان کی شست پر ہیں۔ واحد متفقہ دستاویز، پاکستانی آئین کی یہ دھجیاں اڑانے سے بھی باز نہیں آئے۔

اس مقبول لیڈر اور ان کے پیروکاروں کے بیانات سے فسطائیت کی بدبو آتی ہے۔

گرچہ یہ ساری خوبیاں فسطائیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ان میں فاشسٹ پارٹی اور لیڈرز کی مکمل نشانیاں بھی نہیں ملتیں۔ فاشسٹ پارٹی جیسا نظم و ضبط، پرعزم کارکنان اور لیڈرز ان کے پاس نہیں۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ہمارے ’بطل زماں‘ جو چے گویرا بننے کا شوق پالے ہوئے ہیں، پورے فاشسٹ بھی نہیں۔ یہ خود اور ان کے متوالے موافق ہواؤں میں اڑنے والے پنچھی ہیں۔ ان کے کارکن، لیڈر کے ساتھ مستی میں جھومنے کی حسرتیں دل میں سجائے، جلسوں مین ناچ گا سکتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ایک دن کا دباؤ یا جیل برداشت نہیں کر سکتا۔ مخالفین کو دو دو ماہ تک عدالت میں پیش کیے بغیر نیب کے حوالے کرنے والے، دو دن کے ریمانڈ پر عدلیہ کی راہ داریوں میں رودالیوں کی طرح بین ڈالتے نظر آئے۔ 25 مئی کے دن پتا چل گیا تھا کہ ان میں سے کوئی آئرن لیڈی نہیں، کوئی سٹیل باڈی کا حامل مرد نہیں، یہ سب مٹی کی مورتیں ہیں۔

خود خاں صاحب کا رویہ جا رہا نہ اور اعمال بزدلانہ ہیں۔ پچھلے دور میں وہ کسی بھی موقع پر عوام کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئے۔ وہ اس ملک کے نا اہل ترین اور کمزور ترین وزیراعظم رہے ہیں۔ خاں صاحب کے ہی بقول، فائلیں ان کے سامنے لائی جاتیں اور وہ دستخط کر دیتے۔ الیکشن کمشنر کی نامزدگی ہو یا سپریم کورٹ کے معزز جج کے خلاف پٹیشن، سب کچھ ان سے حکماً کروایا جاتا رہا۔ نئے پاکستان کی مالا جپنے والے، ریاست مدینہ کی بھڑک مارنے والے اب حقیقی آزادی کا ڈول ڈال کر عوام کو بے وقوف بنانے کی خوبیوں کے تو مالک ہیں کوئی انقلاب نہیں لا سکتے۔ انقلاب تو دور کی بات ہے یہ تو بیساکھیوں کے سہارے بھی حکومت چلانے میں ناکام رہے ہیں۔

وہ کسی دکھی کو پرسا نہیں دے سکتے کیونکہ ان کو مختلف فوبیاز بھی ہیں۔ چھپکلی سے ڈرنے والا جنازوں کو کیسے کندھا دے سکتا ہے؟ سیلاب کے مارے دکھیارے عوام کا غم کیسے بانٹ سکتا ہے؟ ان کی پارٹی کے فالورز بھی اسی طرح کے ہیں۔

یہ بزدل لوگ ہیں۔ خوفناک بات یہ ہے کہ بزدل جھمگٹے کی شکل میں خطرناک ہو جاتے ہیں۔ ان کو طاقت مل جائے تو شرفا کی جان و مال اور عزت و آبرو سڑکوں پر رل جاتی ہے۔ یہ نا اہل لوگ حکمران بن جائیں تو بستیاں اجاڑ دیتے ہیں۔ معززین کو ذلیل کر دیتے ہیں۔ ان کی حکومت میں یہ ہی سب کچھ ہوا، وہ یہ ہی کر رہے ہیں اور اگر وہ حکومت پر پھر آ گئے تو بھی یہ ہی کریں گے۔

”اور اس (بستی) میں رہنے والوں میں سے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور وہ اسی طرح کریں گے۔“ القرآن 27 : 34

سید محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سید زاہد کا ایک کالم