پس منظر کی اوٹ سے
لوگ کہتے ہیں
میں نے خوشی پر کبھی کچھ لکھا ہی نہیں ہے
مجھے درد کو
پینٹ کرنے کی فنکار آسودگی کا بڑا تجربہ ہے
مجھے بد دعائی ہوئی ساعتوں میں
گھڑی باندھنے کا بہت شوق ہے
میں رویوں کے پاتال کھنگالتا ہوں
مزاجوں کے صحراؤں کو چھانتا ہوں
زمانوں کے گہرے بھنور کاٹ کر
جب کناروں پہ آتا ہوں
میری توقع کی مٹھی میں
بس ریت ہی ریت ہوتی ہے
موتی نہیں
لوگ سچ بولتے ہیں
میں بد قسمتی کا دھنی آدمی ہوں
میں جب دوستوں کے جنازے اٹھاؤں گا
اپنا بدن کاٹ کر
قبر کو سونپ دوں گا
میرا باپ کم آمدن پر میری ماں کو کوسے گا
پردیس کی دھوپ خوابوں کے سبزے کو جھلسائے گی
میری محبوب عورت مجھے چھوڑ جائے گی
میں کیا لکھوں گا؟
مجھے علم ہے
لوگ ہنستا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں مجھے
پر معافی میرے ناقدیں!
زندگی مجھ کو جیسی ملے گی
میں ویسی لکھوں گا
منیر جعفری