آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمز

علامہ اقبال اور ایران

ایک اردو تحریر از محمد حسین بہشتی

علامہ اقبال کو ایران میں مرکزیت حاصل ہے

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا

شاید کرہء ارض کی تقدیر بدل جائے!

علامہ اقبال کے بارے میں ایرانیوں کے جذبات قابل قدر ہیں ۔ خاص طور پر حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کے عظیم انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ایران میں بہت احترام ، عزت اور زبردست پذیرائی حاصل ہے۔ اس کی اصل وجہ اور سبب علامہ اقبال کی علمی ، فکری اور فلسفی شخصیت ہے؛ساتھ ہی ساتھ آپ کی شاعری بھی اس میں شامل ہے ۔ایرانیوں کو جو آپ سے زیادہ قربت حاصل ہے وہ آپ کی فارسی شاعری ہے ۔ویسے تو ایرانی قوم ایک عظیم تمدّن رکھنے والی قوم ہے جو علمی ، فلسفی اور دینی لحاظ سے ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کے افکار و نظریات کو ایرانی بہت زیادہ پسند کرتے ہیں ۔اس حوالے سے آپ علامہ اقبال کے قرآنیات کو لیجئے ، آپ کلام اقبال کے فلسفیات کو لیجئے ، آپ کلام اقبال کے دینی پہلو کو لیجئے، انہی پہلوؤں کی وجہ سے ایرانی قوم آپ کو ایک عظیم احیاگر ،دینی اور انقلابی شخصیت کے طور پر مانتے ہیں۔ اسی لیے آپ کو اسلامی ورثہ سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے ابتدائی کلاسوں سے لیکر یونیورسٹیوں تک جا بجا علامہ ا قبال کے بارے میں سبق ملیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیںہے۔ اس سے بھی بڑھ کر میری نظر میں یہ بات فوق العادہ ہے کہ حوزہ ھای علمیہ جو دینی مدارس کا مرکز ہیں وہاں کے علماء اور مجتہدین کو میں نےعلامہ اقبال کے بارے میں کتابیں لکھتے ہوئے دیکھا ہے ۔اس کے لیے بہتریں مثال خود رھبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ی دامت برکاتہ کی خطابت و کتابت ہیں ۔آپ یقین کیجئے ؛بندۂ حقیر کو یہ شرف حاصل ہے کہ گذشتہ پچیس سالوں میں یہاں کے دانشوروں ، عالموں ، مجتہدوں کے مختلف مقالات کو مختلف اخبارات اور مجلوں میں چھپتے ہوئے دیکھا ہے۔ مختلف اور گوناگوں سمیناروںاور ممبروں سے خطابت میں علامہ اقبال کے بارے میں عرض ارادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ کے اشعار کی شرح اور آپ کے فکرو نظریات کی تجلیل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ چلیے، حرف آخر آپ کو بتائوں، ایرانیوں نے علامہ اقبال کو اپنے قومی شعراء فردوسی ، رومی ، حافظ ، سعدی شیرازی ۔۔۔۔کی صف میں رکھا ہواہے! ساتھ ہی ساتھ بندہ یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں بہت سارے موضوعات تشنۂ طلب ہیں ۔آپ کے اشعار کے اندر یہ قابلیت یہ صلاحیت موجود ہے کہ جن پر اگرشرح کی جائے ، تجزیہ وتحلیل کیاجائے اورتبین و بیان کیاجائے تو کئی جلدوں پرمشتمل کتاب وجود میں آسکتی ہے۔ جو ابھی تک کام نہیں ہو پایا ہے یقینی بات ہے اِس کے لیے فرصت چاہیے ، مالی طور پر پریشان نہ ہوں ، انگیزہ و اعتماد ہوں ، فکری نہج بلند ہوں ، عمیق مطالعہ ہوں ،یہ سب اسباب ایک انسان میں جمع ہونا ناممکن نہ ہوں تو مشکل ضرور ہیں ۔ اس کے لیے خداوند متعال کوئی اسباب پیدا فرمائے گا ان شااللہ ۔البتہ بندہ ناچیز کے جو جذبات ہیں آپ کے سامنے بیان کئے۔ اب قومی ، ملکی ، سماجی ، علمی اور فکری شخصیات اِس بات کی طرف توجہ کریں گے۔ اور آئندہ قریب میں کوئی سبیل ضرورنکل آئے گی۔دوسری بات علامہ اقبال کے اشعار کے مختلف گوشوں یعنی قرآن مجید سے متعلق جواشعار ہیں؛ اس کاالگ ایک مکمل چیپٹر بنائیں ، جو سیاسیات سے متعلق اشعارہیں ، جو نوجوانوں سے متعلق اشعار ہیں اورجو خواتیں سے مربوط ہیں ، جو اسلام سے تعلق رکھتے ہیں ، اورجو اشعار قومیات سے مربوط ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اُن سب پر سیر حاصل بحث و گفتگو کریں تو یہ کام ایک بہت بڑا علمی سرمایہ ہوگا اور یہ چیز ہمیشہ کے لیے ماندگار ہوجائیں گے ۔میری نظر میں ابھی تک جو کام ہوئے ہیں وہ انفرادی کام ہوئے ہیں ۔جن لوگوں نے اپنے ذاتی عقیدہ و ارادت کے مطابق قلم بندکئے ہیں ، اپنی جگہ بڑی قدر و قیمت کے حامل ہیں ۔ باقی جہاں تک اقبال اکادمی یا کسی اور ادارہ نے کام کئے ہیں وہ قابل قدر ضرور ہیں لیکن جیسا کہ بندہ نے اوپر عرض کیا کہ بہت خلا موجود ہے۔ میرے خیال میں اگر کوئی ٹیم ورک جو خالص اقبالیات پر توجہ مرکوز کر کے کام کیا جائے تو ایک بہت نادر سرمایہ ہمارے سامنے آسکتاہے۔مثال کے طور پر، یہاں ایران میں مولانا روم کے بارے میں یہاں کی ایک علمی و فکری شخصیت آیت اللہ علامہ محمدتقی جعفری رحمتہ اللہ علیہ نے بیس جلدوں پر مشتمل مثنوی پر شرح لکھی ہے جو علمی میدان میں اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح اِسی طرز پر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ایک شرح لکھی جانی چاہیے ۔ ایک اور بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں ،وہ یہ ہے کہ علامہ صاحب کے شکوہ اور جوابِ شکوہ کا فارسی زبان میں بہترین ترجمہ اور اِس کی شرح لکھی جائے تو بہت مناسب ہوگا تاکہ اقبالیات کے حوالے سے یہاں کے لوگ بہتر فائدہ اٹھا سکیں۔ ممکن ہے اس پرکام ہو چکاہو لیکن جو چیز میری نظروں سے گزری وہ کافی اور وافی نہیں ہے ۔ البتہ اللہ کے فضل و کرم سے علامہ اقبال کے علمی ، فکری اور معرفتی میدان میں زبردست کام ہو رہا ہے۔ اس سلسلہ میں آئندہ بھی ہوتا رہے گے ۔اس کے لیے آنے والی نسلیں ضرور آگے بڑھیںگی۔ مجھے امید ہے آئندہ علامہ اقبال کےکلام کے مختلف ابعاد کھل کر سامنے آئیں گے ۔اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ 30 ، 40 برسوں کی بہ نسبت آج علامہ اقبال کے بارے میں دیکھا جائے تو زمین و آسمان کا فرق سامنے آئے گا۔ یہ علامہ اقبال کی خوش نصیبی اورکسی معجزہ سے کم نہیں کہ آج دنیا کے مختلف اقوام و ملل ، قومی و ملکی علمی شخصیات بغیر کسی تعصب کے آپ کے بارے میں اظہار ارادت کے پھول نچھاورکرتے ہیں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خداوند متعال کوعلامہ اقبال کے کوئی خاص عمل پسند آئے تو اقبال کو اس طرح عروج و سربلندی عنایت فرمائی۔اسی ضمن میں مجھے وہ شعر یاد آرہا ہے جو آپ ہی نے فرمایا تھا :
یہ سب تمہاراکرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

عرض ارادت : محمدحسین بہشتی

محمد حسین بہشتی

نام : محمد حسین بہشتی پیدائش : 1969م سندوس سکردو ابتدائی تعلیم : سندوس سکردو اعلی تعلیم : گر یجو یشن کراچی یونیورسٹی شغل : تحقیق (ریسرچ سیکا لر )( اب تک 200 سو مقالہ اور 25 کتابیں)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button