جب سے کتاب زیست کا رنگ جمال ہیں
تب سے خود اپنی ذات میں محو د ھمال ہیں
ساری رْ تیں سما گیَں آنکھوں کے درمیاں
جیسے خزاں کے ماتھے پہ برکھا کا جال ہیں
کیسے طلب کے خواب ہیں اب تک نگاہ میں
پلکوں کے اِس دریچے پہ رکھا خیال ہیں
پھر کیا عجب تمنا کے نشتر بدن پہ تھے
دیکھا! جنونِ عشق سے ھم مالا مال ہیں
جب سے خطِ شکستہ میں لکھے گئے ہیں ھم
سارے جہا ں کے واسطے کار ِ محال ہیں
منزل کی دْھن میں وقت سے آگے نکل گئے
یہ کیسی تشنگی تھی کہ لمحے نڈھال ہیں
کو یَ بھی خواب دے نہ سکا آج تک جواب
آنکھوں میں اپنی ایسے کنول کچھ سوال ہیں
آسناتھ کنول