مجھ سے جو روٹھ گئے ان کو مناتا بھی نہیں
میں بھلا کیسے مناؤں مجھے آتا بھی نہیں
عشق گر پوچھ کہ ہوتا تو میں فوراً کہتا
دور جا عشق مرے پاس بھٹکنا بھی نہیں
اب یہ حالت ہے مری، بعد ترے جانِ جاں
مسکراتا بھی نہیں خود کو رلاتا بھی نہیں
اتنا تنہا ہوں کہ اب پاس رہا کوئی نہیں
ایک سایہ تھا مرا اب تو وہ سایا بھی نہیں
یہ وہ ابصارٓ ہے نہ شوخیاں جو کرتا تھا
کیا ہوا ہے اسے چپ چاپ ہے ہنستا بھی نہیں
احمد ابصار