آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزمنزّہ سیّد

عید اور رسم مصافحہ

ایک اردو کالم از منزّہ سیّد

عید اور رسم مصافحہ

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ماہِ رمضان ہم سب کو اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب کرنے کے بعد اختتام پذیر ہونے کو ہے۔یہ وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس کا انتظار ہر مسلمان کرتا ہے اور نماز و روزے کا فرض ادا کرتے ہوئے دیگر نفلی عبادات بھی اپنی بساط کے مطابق لازمی کرتا ہے ۔ربِ کائنات کی طرف سے جہاں اس مبارک و مقدس مہینے میں مسلمانوں کو جنت کی بشارت دے کر روزے کو جہنم سے ڈھال کے طور پر اتارا گیا وہیں اس ماہِ مقدس کے بعد نعمتِ عظمیٰ کے طور پر عیدالفطر کا خوشیوں بھرا دن عطا فرمایا گیا۔جی ہاں! عید الفطر ہر مسلمان کے لئے لازوال خوشیوں کا دن ہے۔عید کی نماز ادا کرتے ہی تمام مسلمان والہانہ طور پر ایک دوسرے سے گلے مل کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔بڑے چھوٹوں کو حسبِ توفیق عیدی دیتے ہیں۔گھر گھر میں سویاں یا شیر خورما بنایا جاتا ہے جو کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بھی بھجوایا جاتا ہے۔قسم قسم کے پکوان تیارکئے جاتے ہیں،سب لوگ اپنے پیاروں کے گھروں میں عید ملنے جاتے ہیں اور مل کر کھانے پینے کا سلسلہ عید کے اگلے ایک دو روز تک بھی جاری رہتا ہے۔

امسال 2020 ء کی عید الفطر کا پیشگی تذکرہ کرتے ہوئے بہت سے باشعور لوگ جہاں رنجیدہ ہیں تو وہیں بہت سے غیر سنجیدہ منچلے حسبِ روایت بہت خوش اور پُرجوش بھی ہیں۔اس سال بدقسمتی سے ایک ایسی وبا یا بلا ہمارے سروں پر مسلط ہے جسے ہم سب” کرونا ”کے نام سے جانتے ہیں۔کرونا نے پوری دنیا کے نظامِ حیات کوبُری طرح متاثرکر رکھاہے۔اس کی وجہ سے ہر طرف تمام کاروبارِ زندگی درہم برہم ہو کر رہ گیا۔مہنگائی کو مزید عروج ملا،بہت سے امیر ملکوں کی معیشت کے بلند و بالا مینار زمیں بوس ہوئے اور سوشل ڈسٹینس(Social distance) کے نام پر انسان انسان سے دور رہنے پر مجبور ہواکیونکہ عالمی ادارہ صحت اور تمام طبی ماہرین نے مل بیٹھ کر کی گئی انتھک تحقیق کے بعد کرونا کوہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے پھیلنے والی بیماری قرار دیاجس کے بعد تمام دنیا کے گلیوں بازاروں میں ہُو کا عالم طاری ہوا۔ہر طرف ویرانی و وحشت نے پنجے گاڑ لئے اور دنیا کے تمام انسان ”قرنطینہ ”کے نام پر اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔تمام سرکاری و نجی دفاتر ،سکول، کالج،یونیورسٹیز،مساجد و دیگر مذہبی مقامات اور عوامی جگہوں کو مکمل طور پر بند کر کے لاک ڈاؤن کیا گیا تاکہ کرونا جیسے جان لیوا دشمن کو مزید تباہ کاریوں سے باز رکھا جا سکے۔

بہت سے ممالک نے مکمل لاک ڈاؤن اور اپنی عوام کے بھر پور تعاون کے ذریعے اس موذی وباء پر بہت حد تک قابو پا لیاجبکہ بہت سے ممالک ابھی تک اس وبا ء کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔بدقسمتی سے ان میں ہمارا پیارا وطن پاکستان بھی شامل ہے جہاں چند سو مریضوں کا سن کر ہم سب دہشت زدہ تھے مگر لاک ڈاؤن میں نرمی ہوتے ہی ہم”زندہ دلانِ پاکستان” بازاروں کی طرف اس طرح دوڑ پڑے کہ جیسے نئے کپڑے جوتے اور میک اپ کا سامان خریدے بنا ہمارا زندہ رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اور یہ سب خریداری عید کے نام پر کی جا رہی ہے،کوئی بھی یہ سمجھنے یا ماننے کو تیار نہیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔عید کی خریداری سے زیادہ ضروری اپنی اوراپنے پیاروں کی زندگی بچانا ہے۔

بہت سے لوگوں کو یہ کہتے دیکھا اور سنا گیا ہے کہ ”جو بھی ہونا ہے اللہ کی طرف سے ہونا ہے”۔یعنی کرونا سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے کے بعد بُرے نتائج کا سارا ملبہ رب کی ذات پر ڈالنے کے خواہشمند یہ لوگ ذرا سے بخار کی صورت میں شوگر یا بلڈ پریشر بڑھنے یا کم ہونے کی صورت میں بھاگ بھاگ کر ڈاکٹروں کے پاس نجانے کیا لینے جاتے ہیں۔اس وقت اِن عقل کے اندھوں کا یہ توکل اور اللہ پر بھروسہ” ہَوَا ”کیوں ہو جاتا ہے۔۔؟کرونا کے لئے ایسے جملے کہنے والے چند دن شوگر کی گولیاں، انجکشن اور بلڈ پریشر کی گولیاں چھوڑ دیں تو پھر دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کو بھول کر ڈاکٹر کی یاد کیسے ستاتی ہے۔

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم وہ ڈھکوسلے باز قوم بن چکے ہیں کہ جو دین، مذہب اور شریعت کو بھی صرف اور صرف اپنے فائدے کے لئے انسانی معاملات کے درمیان لے کر آتے ہیں بصورتِ دیگر ہم سب اندر سے دو نمبر مسلمان ہی ہیں جنھیں بخار، بلڈ پریشر ،شوگر یا دیگر بیماریوں کے نتیجے میں اللہ سے بھی پہلے ڈاکٹر یاد آتا ہے اور ڈاکٹر ہی ہمیں دوا دے کر اللہ کی یاد دلاتا ہے کہ اللہ کرم کرے گا۔

اس لئے دست بستہ گذارش ہے کہ اس عید پر اجتماعات سے پرہیز کریں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے اجتناب برتیں۔اگر آج ہم اس وبا ء کا لقمہ بننے سے بچ گئے تو ساری زندگی عیدیں مناتے رہیں گے اور گلے ملتے رہیں گے ورنہ عیدوں کا حال ان غم کے ماروں سے پوچھیئے جن کے گھر سے کوئی ایک فرد بھی انتقال کر جائے تو ساری زندگی عید کے دن کو یومِ سوگ کی طرح منا کر اپنے فوت شدگان کو یاد کر کے آنسو بہاتے ہیں، ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے اور پھول ڈالنے جاتے ہیںاور بھول ہی جاتے ہیں کہ عید کا دن خوشی کا دن ہے۔اللہ پاک کرۂِ ارض کے تمام انسانوں کو کرونا جیسی منحوس وباء کے شر سے محفوظ فرمائے تا کہ تمام انسان اپنے اپنے خوشی کے تہوار ہمیشہ خوشی کیساتھ مناتے رہیں اور تمام اہلِ وطن سے گذارش ہے کہ جوش سے نہیں ہوش سے کام لیجئیے،جذبات سے نہیں عقل سے کام لیجیئے، باشعورقوم ہونے کا ثبوت دیجیئے اور اس عید پر گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے پرہیز کیجیئے کیونکہ اگرآج ہم نے کرونا کو شکست نہ دی تواللہ نہ کرے کرونا ہمیں بُری طرح پچھاڑ دے گا…خدارا !کرونا کو سنجیدگی سے لیجیئے کیونکہ کرونا ہمیں بے انتہا سنجیدگی سے لے رہا ہے اور اب بات سینکڑوں مریضوں سے بڑھ کر ہزاروں تک جا پہنچی ہے اور اللہ نہ کرے کہ ہمارے ملک کا حال بھی اٹلی، سپین یا امریکہ جیسا ہو۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔آمین۔

منزّہ سیّد

منزّہ سیّد

نام...منزہ سید.... جائے پیدائش ساہیوال
Loading...
سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button