- Advertisement -

خوش طبعی یعنی مزاح کرنے کی شرعی حیثیت

محمد یوسف برکاتی کا کالم

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

یاد رکھئے مزاح اور زندہ دلی وخوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے اور جس طرح اس کا حد سے تجاوز ہوجانا نازیبا اور مضر ہے اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقصان دہ عمل ہے جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنادیتا ہے بسا اوقات ہمجولیوں دوستوں ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لیے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان وشوکت کے باوجود بسا اوقات اپنے جاں نثاروں اور نیازمندوں سے مزاح فرماتے تھے اس ضمن میں ہمیں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی اسوہ حسنہ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اسی لئے اللہ تبارک وتعالی نے سورہ الاحزاب کی آیت 21 میں ارشاد فرمایا کہ
لقد کان فی رسول اللہ اسوہ حسنہ
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔۔ بیشک اللہ کے رسول کی پیروی تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس آیت میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے عمدہ اور اعلی اخلاق کی گواہی دی ہے ویسے بھی ہنسنا مسکرانا ہشاش بشاش ہوکر کسی سے ملنا اور مل کر خوشی کا اظہار کرنا اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو یہ وہ صفات ہیں جو صرف اور صرف آپ علیہ وسلم کے اخلاق کا ہی ایک حصہ تھیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے صحابہ نے عرض کیا کہ کیا آپ علیہ وسلم ہم سے مزاح کرتے ہیں ؟ تو فرمایا کہ ہاں اگر کبھی مزاح کرتا ہوں تو سچ بات کے سوا کچھ نہیں کہتا
( امام غزالی علیہ الرحمہ احیاء العلوم جلد 3 ص 218 ) ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں کسی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم مزاح بھی کیا کرتے تھے ؟ فرمایا ہاں اسی طرح حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم بنسبت دوسرے لوگوں کے اپنی ازواج مطہرات سے زیادہ مزاح فرمایا کرتے تھے جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں جنگ بدر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ساتھ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ آئو ہم دوڑیں دیکھیں کون آگے نکلتا ہے میں نے اپنا دوپٹہ مظبوتی سے باندھ لیا اور ایک نشان کھینچ کر کھڑی ہوئی اور دوڑی تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آگے نکل گئے اور فرمایا کہ یہ ذالمجاز کا بدلہ ہے یہ ایک جگہ کا نام ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا جب کم عمر تھیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو اپ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا یہ مجھےدو تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا انکار کرتے ہوئے وہاں سے بھاگیں آپ علیہ وسلم پیچھے بھاگے لیکن وہ دور نکل گئیں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کو یہ بات اس وقت یاد دلائی ۔
( امام غزالی علیہ الرحمہ احیاء العلوم جلد 3 ص 219 ) ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں عام لوگوں سے مزاح کرتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم بڑی خوش طبعی فرماتے تھے جیسے ایک بوڑھی عورت آپ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی تو وہ رونے لگی کہ میرا کیا ہوگا جبکہ وہ قران پڑھا کرتی تھی تو آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے قران میں نہیں پڑھا
اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(35) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا(36 )
عُرُبًا أَتْرَابًا (37)۔ (سورہ الواقعہ 35 36 37 )
ترجمعہ کنزالعرفان۔۔۔بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا تو ہم نے انہیں کنواریاں بنایا ۔محبت کرنے والیاں ۔ سب ایک عمر والیاں ۔ مطلب یہ کہ جنت میں کوئی بوڑھا ہوکر نہیں جائے گا تو آپ علیہ وسلم کی اس بات پر وہ بوڑھی عورت خوش ہوگئی۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں مزاح یعنی خوش طبعی تبسم یعنی مسکرانا اور قہقہ یعنی ٹھٹھہ مارنا یہ سب الگ الگ معاملات ہیں اب دیکھیں خوش طبعی کیا ہے ؟ مزاح سنجیدگی کے ضد ہے دل لگی، ہنسی اور خوش طبعی سب مزاح میں شامل ہے۔ مزاح کا مقصد باہم محبت و الفت عزیز واقارب میں بے تکلفی کی فضا قائم رکھنا ہے۔ اس سے احباب میں الفت بڑھتی ہے لیکن ہنسی مزاح میں جھوٹ فریب تہمت فحش گوئی اور کسی کی تذلیل قطعا ممنوع ہے۔ اسی طرح اگر ہم تبسم کو دیکھیں تو اس کے معنی کیا ہیں ؟چہرے کی خوشی سے اگر دانت نظر آئے اور آواز نہ ہو تو اس کو تبسم کہتے ہیں۔اور اسی طرح یہ دیکھیں کہ قہقہ کیا ہے ؟تو چہرے کی خوشی سے اگر دانت، نظر آئے اور آواز دور تک جائے تو اس کو قہقہ کہتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں خوش طبعی اخلاق کی ایک بہترین صفت ہے اور یہ صفت ہر کسی کو عطا نہیں ہوتی بلکہ جس کو یہ صفت حاصل ہوجائے وہ خوش نصیب ہوتا ہے اگر کسی کو یہ صفت حاصل ہوجائے تو اس پر نظر پڑتے ہی دل سرور میں آجاتا ہے رنج و غم اور پریشانی کے آثار ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں لیکن مزاح بھی ایسا ہو جیسے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات اور اپنے صحابہ سے فرمایا کرتے تھے جیسے کہ خادم خاص حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سرکار علیہ وسلم نے مجھے "یا ذالاذنین اے دو کانوں والے کہکر مخاطب فرمایا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اگر ہم سچ اور حق بات کو مزاح کے انداز میں بیان کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو دیکھئے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ مجھے سواری عنایت فردیجئے تو سرکار علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں ضرور میں تمہیں ایک اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں تو وہ کہنے لگا کہ اونٹنی کا بچہ تو مجھے گرادے گا میں اس کا کیا کروں گا ؟ تو آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹوں کو اونٹنیاں ہی تو جنتی ہیں یعنی اونٹ کتنا ہی بڑا ہوجائے وہ اونٹنی کا بچہ ہی کہلائے گا یہ سن کر وہ شخص مسکرادیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہمیں بہت کم ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں آپ علیہ وسلم کا مزاح کرنا نظر آتا ہے کیوں کہ مزاح کی عادت بنالینے کی شریعت میں ممانعت ہے کہ یہ دل کو دین سے دور کردیتا ہے انسان دین میں غفلت برتنے لگتا ہے لیکن خوش ہونا اور خوش طبعی کا شریعت کے دائرے میں رہکر اظہار کرنا اللہ تعالی کو بھی پسند ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں علامہ ابن قیمہ رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
الفرح لذة تقع في القلب بإدراك المحبوب
کسی محبوب چیز کے مل جانے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے اسے ہی فرحت اور خوشی کہتے ہیں یعنی اللہ تعالی کی نعمت ملنے پر خوش ہوکر اس کا شکر ادا کرنے والے سے وہ رب بھی راضی ہوتا ہے سورہ یونس کی آیت 58 میں ارشاد ہوا کہ
قُلْ بِفَضْلِ اللَّـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا
آپ کہدیجئے کہ یہ اللہ تعالی کے فضل اور مہربانی سے ہے تو چاہئے کہ وہ لوگ خوش ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں آگے سورہ العمران کی آیت 170 میں ارشاد باری تعالی ہوا کہ
فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ
جنتی لوگ خوش ہوں گے ان نعمتوں پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہیں ایک حدیث مبارکہ میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” رَوِّحُوا الْقُلُوْبَ سَاعَةً” دلوں کو وقتا فوقتا خوش کرتے رہا کرو ۔۔آپ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم جہاں ایک طرف اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ قدمِ مبارک پرورم آجاتا تھا وہیں آپ صحابہ کرام سے ہنسی مذاق اور دل لگی بھی کرتے تھے۔اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اسلام سستی اور کاہلی کوناپسنداور چستی اور خوش طبعی کو پسند کرتا ہے۔ شریعت کی تعلیمات اس امر کا تقاضہ کرتی ہیں کہ مسلمان شریعت کے تمام احکام پر خوشی خوشی عمل کرے۔ یہ عمل تنگ دلی کے ساتھ نہ ہو کیوں کہ سستی اور تنگ دلی کے ساتھ عبادات کو انجام دینا نفاق کی علامت ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اللہ تعالی قران کی سورہ النساء کی آیت 142 میں فرماتا ہے کہ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ
” منافقین جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ” سستی اور کاہلی شریعت کا اتنا ناپسندیدہ عمل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم بھی اس سے پناہ مانگتے تھے وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ
” اے اللہ میں عاجزی اور سستی سے تیری پناہ مانگتا ہوں "۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اگر ہم سرکار علیہ وسلم کے مزاح کرنے کی عادت کا ذکر کریں تو
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ” میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں غزوہ تبوک میں حاضر ہوا، جب کہ آپ چمڑے سے بنے سائبان میں قیام پذیر تھے۔ میں نے سلام کیا، تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا آجاؤ میں نے عرض کیا: پورا کا پورا آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں پورا کاپورا۔ (جگہ کی قلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان صحابی رضی اللہ عنہ نے جس محبت کے ساتھ مزاح کیا رسول اللہ ﷺنے کمالِ اخلاق مندی سے انہیں کے مزاحیانہ اسلوب میں جواب دیا)” ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھی مزاح کی نہ صرف گنجائش ہے، بلکہ مستحسن ہے اور اسوہ نبوی کی اتباع ہے۔
اسی طرح سیدنا نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول ﷺ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ اسی درمیان آپ کو گھریلومعاملات میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی آواز بلند محسوس ہوئی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے توسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف مارنے کے لیے لپکے اور اپنی بیٹی عائشہ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول ﷺ سے اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں؟!
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺعائشہ کو ان کے والد کی مار سے بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران ابوبکر رضی اللہ عنہ غصّہ کی حالت میں گھر سے نکل گئے۔ ابوبکررضی اللہ عنہ کونکلتے دیکھ کررسول اللہ ﷺنے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: کیا خیال ہے؟ میں نے تمہیں اس شخص (الرجل)سے بچایا کہ نہیں؟ راوی کہتے ہیں کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کچھ دنوں تک ناراض رہے، پھر رسول اللہ ﷺکے یہاں حاضر ہوکر اندر آنے کی اجازت چاہی، گھر جاکر محسوس کیا کہ آپ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین صلح ہوچکی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ: ” آپ دونوں مجھے اپنی صلح میں شامل کرلیجیے،جس طرح آپ دونوں نے مجھے اپنے جھگڑے میں شامل کیا تھا، تو آپ نے فرمایا کہ: جی ہاں آپ کو صلح میں شامل کرلیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس حدیث میں ابوّ کے رشتہ کے حامل بزرگ جناب ابوبکررضی اللہ عنہ کو محض (الرجل) کہنے سے جو مزاح پیدا ہوتا ہے، اسے کوئی بھی شخص محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ ہے محبت دلی لگائو خوش طبعی اور مزاح کا وہ دلکش اندا جو تاریخ اسلام میں ہمیں کہیں نہیں ملتا یہ صرف اور صرف سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی ہمیں نظر آتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں شریعت نے ہر جگہ ایک دائرہ کھینچا ہوا ہے جو کام اس دائرہ میں رہکر ہوگا وہ جائز ہوگا اور جو دائرے سے باہر نکل گیا وہ ناجائز ہوگا کبھی کبھی مزاح کرنا سنت بھی ہے اور ضروری بھی لیکن اسے بار بار کرنا یعنی طول دینا منع ہے امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :” لوگوں کی ایک بہت بڑی غلطی اور جرم یہ ہے انہوں نے مذاق کو پیشہ بنا لیا ہے ” اتفاقیہ طور پر حسبِ موقع مزاحیہ گفتگو کرلینا اور تفریحی اشعار کہہ سن لینا اگرچہ جائز ہے؛ لیکن اس کے لیے اہتمام سے اجتماع کرنا اوراس میں گھنٹوں لگانا کسی طرح بھی درست نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس تحریر کے ذریعے ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ خوش طبعی یعنی مزاح کا کرنا کس حد تک جائز ہے اور شریعت کے اس کے متعلق کیا احکامات ہیں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے مزاح کرنا جائز ہے اور اس سے تجاوز کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے لہذہ سرکارصلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی حیات طیبہ کو سامنے رکھتے ہوئے مزاح کا استعمال نہ صرف خوشطبعی میں شمار ہوگا بلکہ سنت نبوی کی پیروی بھی ہوگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سے ہر وہ کام لے جس میں اس کی رضا شامل ہو اور جو سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے ہم ادا کریں ۔آپ بھی دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے حق بات لکھنے کی اور ہم سب کو اسے پڑھکر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔۔

 

محمد یوسف برکاتی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم