- Advertisement -

احادیث سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے

محمد یوسف برکاتی کا کالم

میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں کو میرا آداب
” احادیث سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے "کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کررہا ہوں جس میں ہم ایک حدیث کے بارے میں پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ اس کا ہماری زندگی پر کتنا اثر ہونا چاہیئے یا ہوتا ہے آج اس سلسلہ کا پہلا حصہ حاضر خدمت ہے
” سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ایک چٹائی پر سوئے ہوئے تھے اور جب سوکر اٹھے تو آپ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر چٹائی کے نشانات تھے تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ( اگر آپ ہمیں حکم دیں تو ) آپ علیہ وسلم کے لئے آرام دہ بستر تیار کردیں تو آپ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دنیا سے کیا مطلب میری اور اس دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سوار کسی درخت کے نیچے کھڑا ہوکر سایہ سے فائدہ اٹھائے اور پھر چل دے اور درخت کو اپنی جگہ چھوڑ جائے "۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اج کی یہ حدیث سنن ترمزی کی حدیث ہے اور اس کا نمبر 2377 ہے سنن ترمزی ایک باب ” دنیا سے بے رغبتی کا بیان ” سے لی گئی ہے اور یہ باب نمبر 44 ہے اس حدیث کے خلاصہ میں ہمارے مفسرین لکھتے ہیں کہ اس دنیا کی وہ نعمتیں جو اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے انسان کو ایک آزمائش کی صورت میں مہیا ہوتی ہیں ان کو حاصل کرکے اس رب تعالی کا شکر ادا کرے اور جو حاصل نہ ہوسکا اسکی خواہش نہ کرے اور بے جا دنیا کی رنگینیوں اور اس کی لذت میں گم ہوکر اس کی محبت میں اس قدر گرفتار نہ ہوجائیں کہ اللہ تعالی کے احکامات کی نافرمانی کرنا شروع کردیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دنیا کی محبت سے دوری اور اس کی بے رغبتی اپنا کر صرف اور صرف اللہ رب العزت کے احکامات کی پیروی اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی ترغیب ہمیں اس حدیث سے ملتی ہے یعنی یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ دنیا اور اس کی ہر شہ فانی ہے لہذہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ فلاع وہ عورت جو بہت خوبصورت اور حسین ہے لیکن وہ کچھ عرصہ میں اس دنیا سے چلی جائے گی تو اس سے محبت کا دعوی کون کرے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں بلکل اسی طرح ہر ذی شعور اہل ایمان مسلمان یہ بات جانتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے لہذہ اس کی چمک دمک اس کی رنگینیاں اور اس کی ہر شہ فانی ہے اس سے محبت کرنا اور اس کی محبت میں اپنے آپ کو گم کردینا کہاں کی عقلمندی ہے یہ دنیا ایک کمرئہ امتحان یے جہاں ہمیں ہمیشہ قائم رہنے والی آخرت کی زندگی میں سرخرو ہونے کی تیاری کرنی ہے اور یہ صرف اچھے اور نیک اعمالوں کی بدولت ممکن ہے اس کے علاوہ یہ ممکن نہیں ہے اور یہ نیک اعمال ہم اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرکے ممکن بنا سکتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ایک دفعہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اپنے صحابئہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ تشریف فرما تھے تو ایک واقعہ سنایا آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص بیمار ہوگیا اور آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ قریب المرگ ہوگیا اس کے تین دوست تھے اس نے سب سے پہلے اپنے پہلے دوست کو بلوایا اور کہا کہ میں اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں داخل ہوچکا ہوں تم میری اس معاملے میں کیا مدد کرسکتے ہو
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس نے کہا کہ میں نے ساری زندگی تمہاری مدد کی ہے لیکن موت کا میرے پاس کوئی علاج نہیں لہذہ میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا اس بیمار شخص نے پھر اپنے دوسرے دوست کو بلوایا اور اس سے سارا ماجرا بیان کیا اور مدد کی درخواست کی تو اس نے کہا کہ میں تو اس انتظار میں ہوں کہ تمہارا انتقال ہو تمہیں اچھی طرح غسل دے کر کفن پہنا کر خوشبو لگاکر اور ایک اچھی جگہ دفن کردوں بس اس سے زیادہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس بیمار شخص نے پھر اپنے آخری دوست کو بلوایا اور اس سے مدد مانگی تو اس نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تمہارے ساتھ قبر میں جائوں گا قیامت میں قبر سے آپ کے ساتھ اٹھوں گا اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بھی تمہارے ساتھ کھڑا رہوں گا یہ سارا واقعہ سنانے کے بعد سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو یہ تین دوست صرف اس بیمار شخص کے دوست نہیں تھے بلکہ یہ تین دوست ہر وقت اور ہر گھڑی ہم سب کے ساتھ ہوتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں یعنی پہلے دوست کا نام ” مال ” تھا دوسرے دوست کا نام رشتہ دار یعنی "(عیال ) ” تھا جبکہ تیسرے دوست کانام ” اعمال” تھا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے سنائے گئے اس واقعہ سے بھی ہمیں یہ ہی سبق ملتا ہے کہ اس عارضی دنیا میں ہمیں نہ مال کام آئے گا نہ اہل و عیال اگر کام آئیں گے تو صرف اعمال جو ہمارے ساتھ روز محشر تک ساتھ ساتھ رہیں گے اور یہ ہی ہماری آگے کی زندگی کا فیصلہ کریں گے۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں قران مجید میں اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا کہ
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ج وَالْبٰـقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَيْرٌ اَمَلًاo
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔ مال اور بیٹے یہ جیتی دنیا کے سنگار ( آرائش ) ہے اور باقی رہنے والی اچھی باتیں ان کا ثواب تمہارے رب کے یہاں بہتر اور امید میں سب سے بھلی ۔
ہمارے مفسرین نے اس کا خلاصہ یہ کیا ہے کہ مال اور اولاد تو صرف دنیاوی زندگی کی زینت اور حقیقت ہیں جبکہ باقی رہنے والی تو صرف نیکیاں ہیں اور یہ اللہ تعالی کے نزدیک اس کا ثواب اور اجر بھی بہتر ہے اور آرزو کے لحاظ سے بھی بہتر ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دنیا کی بے رغبتی کے مطعالق ایک اور حدیث پڑھیئے
جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: يا رسول الله دلني على عمل إذا عملته أحبني الله وأحبني الناس؟ فقال: «‏‏‏‏ازهد في الدنيا يحبك الله وازهد فيما عند الناس يحبك الناس»
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل ارشاد فرمائیے کہ جب میں وہ عمل کروں تو اللہ مجھے اپنا محبوب بنا لے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا ” دنیا سے بے نیاز و بے رغبت ہو جا اللہ تجھے محبوب رکھے گا اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بھی بے نیاز ہو جا لوگ بھی تجھے محبوب رکھیں گے اور پسند کریں گے۔” اسے ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دنیا کی محبت اور اس کی رنگینیوں اور لذتوں میں گم ہوجانے سے سوائے بربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا دنیا کی حرص اور لالچ انسان کو اللہ تعالی کے احکامات سے دور کردیتی ہے اور انسان گمراہ ہوجاتا ہے اور وہ گناہوں کے دلدل میں دھنستا چلاجاتا ہے آیئے یہاں میں ایک واقعہ تحریر کررہا ہوں جسے پڑھکر آپ کو علم ہوگا کہ دنیا کی محبت کا نقصان اور دنیا کی بے رغبتی سے کیا فائدہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ایک بادشاہ نے ایک خوبصورت اور انتہائی حسین محل تعمیر کروایا اور اس لوکوں کے لیئے بڑی آسائش اور بری چمک دمک والی چیزیں رکھیں اور اس کے بعد یہ اعلان کیا کے ایک مقررہ مدت ہر شخص کو دی جائے گی جس میں وہ اس پورے محل کی خوبصورتی دیکھ لے اگر کسی نے مدت گزجانے تک پورے محل اور اس کی خوبصورتی کا نظارا نہ کیا تو اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے گا اور جس نے مقررہ مدت تک یہ محل دکھ لیا اسے یہ محل بطور انعام دے دیا جائے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں پورے علاقے سے لوگ اس خوبصورت محل اور اس کی ہر خوبصورت اور آنکھوں کو کھیرا کردینی والی چیز کا نظارا کرتے لیکن وہ اتنے محو ہوجاتے کہ وقت گزرنے کا انہیں پتہ ہی نہیں چلتا اور مقررہ وقت تک کوئی بھی پورا محل دیکھ نہ پاتا اور وہاں سے نکل کر اپنے موت کے منہ میں چلاجاتا لوگوں کی اسی بھیڑ میں ایک نوجوان ایسا بھی تھا جسے اپنے آپ پر پورا یقین اور مکمل بھروسہ تھا کہ وہ یہ محل مکمل طور پر بمئہ تمام خوبصورتی اور کشش کے اپنے مقررہ وقت میں دیکھ کر آئے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں لہذہ اس نوجوان کو بھی اس محل تک لایا گیا اور ایک مقررہ وقت دے کر اسے بھی اس محل میں داخل کردیا گیا دیکھنے والوں نے دیکھا اور ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی جب وہ نوجوان اپنے مقررہ وقت سے پہلے پورا محل تمام رعنائیوں اور دلکش نظاروں کو دیکھکر واپس باہر آگیا بادشاہ بذات خود محو حیرت تھا تب اس نے پوچھا کہ کوئی شخص بھی یہ کام سرانجام نہیں دے سکا آخر تم نے یہ کام اپنے مقررہ وقت پر کیسے کرلیا ؟
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں وہ نوجوان یہ سن کر مسکرایا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت وہ سارے لوگ جو اندر گئے سب کے سب انتہائی بیوقوف تھے کیوں کہ انہوں نے ایسی خوبصورتی پہلے کبھی دیکھی نہیں تھی اس لیئے وہ اس میں گم ہوگئے اور اس وجہ سے ان لوگوں کے ذہن سے آپ کی وہ شرط نکل گئی کہ جو یہ محل مقررہ وقت تک دیکھ لے گا اسے یہ محل بطور انعام دے دیا جائے گا میں یہ سوچ کر داخل ہوا کہ اگر میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں تو یہ محل ابھی مجھے بغور دیکھنے کی کیا ضرورت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس نے کہا کہ میں نے اندر داخل ہوتے ہی اپنی انکھیں بند کرلی تھیں تاکہ میں اس دلکشی میں کھو نہ جائوں اور پورا محل مقررہ وقت پر دیکھ کر باہر آگیا اب یہ محل میرا ہے اور مجھے اسی میں رہنا ہے تو میں اس کی ایک ایک چیز سے لطف اندوز ہونے کی سعادت حاصل کرلوں گا بادشاہ اس کی دانشمندی سے خوش ہوا اور اپنے وعدے کے مطابق وہ محل اس نوجوان کو بطور انعام دے دیتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس واقعہ کو اہل ایمان مسلمانوں کو سمجھانے کے لیئے اس میں بادشاہ کو یعنی خالق کائنات محل کو یہ دنیا اور لوگ یعنی دنیا سے محبت کرکے اس میں کھوجانے والے جبکہ نوجوان جو اللہ کے مقرب اور محبوب بندوں کی طرح ہیں ان سے تسبیح دی گئی ہے مطلب یہ کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس دنیا میں ایک مقررہ وقت کے لیئے بھیجا ہے لیکن ہم اس کی محبت میں اور اس کی لذت میں محو ہوکر اس کے احکامات کو بھلا بیٹھے اور ہلاک کردئے گئے یعنی جہنم رسید کردیئے گئے اور جو لوگ اس کی محبت سے بچ نکلے جیسے اللہ تعالی کے مقرب بندے تو انہیں اسی عارضی دنیا میں جنت کی خوشخبری دے دی گئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں دنیا کی محبت میں گرفتار ہوکر اس رب رب تعالی کے احکامات کو بھلادینے اور اس کی دلکشی اور رعنائیوں میں محو ہونے والوں کے لیئے اللہ تعالی نے بڑے عذاب کی خبر دی ہے قران مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ ثُمَّ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ؕ﴿۴﴾ کَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡیَقِیۡنِ ؕ﴿۵﴾ لَتَرَوُنَّ الۡجَحِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیۡنَ الۡیَقِیۡنِ ۙ﴿۷﴾ ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ﴿۸﴾
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔۔ تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا ہاں ہاں جلد جان جائوگے پھر ہاں ہاں جلد جان جائو گے ہاں ہاں اگر یقین کا جاننا جانتے تو مال سے محبت نہ رکھتے بیشک ضرور جہنم کو دیکھو گے پھر بیشک اسے یقینی دیکھنا دیکھو گے پھر بیشک ضرور اس دن تم سے نعمتوں سے پرسش ہوگی ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اس آیت مبارکہ کے خلاصے میں ہمارے مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی اس آیت میں اپنے دنیا سے رغبت رکھنے والے بندوں سے مخاطب ہوکر انہیں تنبیح فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ ایک دوسرے سے زیادہ دنیاوی سازوسامان کے حصول کی لالچ نے تمہیں غفلت میں ڈال دیا یہاں تک کہ تم دنیا سے رخصت ہوکر اپنی اپنی قبروں میں پہنچ جاتے ہو اور مرنے کے بعد تمہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اگر تم اس دنیا کی حقیقت کو جان لیتے تو کبھی دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہوتے ۔ وہ فرماتا ہے کہ اب تم دوزخ کو دیکھ کر رہو گے اور تم یقین کے ساتھ دیکھ کر رہو گے پھر بروز قیامت تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پرسش ہوگی جو رب تعالی نے اس دنیا میں تمہیں عطا کی تھیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں دنیا سے بے رغبتی رکھنے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے والوں کے بیشمار واقعات ملیں گے حضرت سیدنا خواص رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ دراصل یہ دنیا ابلیس لعین یعنی شیطان مردود کی بیٹی ہے اور اس دنیا کی محبت میں گرفتار ہر شخص اس کی بیٹی کا خاوند یعنی شوہر ہے اور شیطان مردود اپنی بیٹی کی وجہ سے اس دنیادار شخص کے پاس آتا رہتا ہے لہذہ اے مومنوں اے مسلمانوں اگر شیطان مردود سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو اس کی بیٹی سے دور رہو یعنی دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے سے بچو ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا لکھا ہوا ایک معروف کلام جسے دعوت اسلامی کے مرحوم ثناء خواں جناب حاجی مشتاق قادری عطاری نے بڑے پرجوش انداز میں پڑھا خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب لکھتے ہیں کہ
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں یے
یہ عبرت کی جاہ ہے تماشہ نہیں ہے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے
ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے
اگر اس عارضی دنیا کی حقیقت کا اندازا کرنا ہو تو یہ کلام سن لیجیئے یا پڑھ لیجیئے آپ کو اس دنیا کی مکمل حقیقت کا علم ہوجائے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ہم لوگ اس دنیا میں پیسہ کمانے اور خوب سے خوب مال و اسباب جمع کرنے کو رزق کی تلاش کا نام دیتے ہیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم دن رات محنت کرکے اپنے بچوں کے لیئے رزق کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس معاملے میں ہم رزق دینے والے کو یکثر بھلا بیٹھتے ہیں جناب میر دوست علی خلیل کا ایک سعر اس موقع پر مجھے یاد آرہا ہے آپ فرماتے ہیں کہ
خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں
خیال رزق ہے رازق کا خیال نہیں
فی زمانہ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ہم بھی دنیاداری میں اللہ رب العزت کے احکامات کو بھول کر اس دنیا کی لذتوں میں محو ہوگئے ہیں یا اپنے اردگرد لوگوں کی طرف دیکھیں تو ہمیں ایسے ہی لوگ نظر آئیں گے جو روزی کی تلاش میں رازق کو بھلا بیٹھے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ہماری اج کی حدیث سے ہماری زندگی پر یہ اثر مرتب ہوا کہ ہمیں اس عارضی دنیا میں ایک مخصوص وقت کے لیئے بھیجا گیا ہے تاکہ ہم اپنے رب کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے نیکیوں کا ذخیرہ کریں تاکہ وہ ہمیں بروز محشر ہماری بخشش کے لیئے کام آسکیں اور اس دنیا کی محبت میں گرفتار ہوکر اس کی لذتوں اور اس کی چمک دمک میں محو ہوکر اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد نہ کرلیں اخر میں اپنی تحریر ان اشعار کے ساتھ اختتام کروں گا کہ

آخرت کو بھول بیٹھے فکر دنیا کے عوض
موت کا حملہ اچانک بے خبر کیسا لگا؟
ہنستے ہنستے تو نے گزاردی زندگی دنیا میں
اب نیا زیرزمین تنگ گھر کیسا لگا ؟
دفن کرکے قبر میں سب بے رخی سے چل دیئے
جس سے تو مانوس تھا اب وہ بشر کیسا لگا ؟
اب نہ وہ تکیہ ملائم اور نہ بستر مخمل
جسم پر دوگز کفن مٹی سر پر کیسا لگا ؟

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دنیا کی محبت سے دور کرکے صرف اور صرف اپنا قرب اپنی محبت اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی محبت سے ہمارے دلوں کو منور فرمادے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔۔۔۔۔

محمد یوسف برکاتی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
محمد یوسف برکاتی کا کالم