یوں اترانا بھی تیرا ظالم بجا ہے
کہ تو ایک مظلوم دل میں بسا ہے
یہ کمرہ اچانک جو روشن ہوا ہے
جلا ہو گا دل ہی دیا تو بجھا ہے
میں کیسے بھلا دوں اُس اک بے وفا کو
مری زندگی میں وہی بے وفا ہے
ہو مشکل پسندی جنہیں عیب کوئی
انہیں کیا خبر کیا سخن کا نشہ ہے
کٹے گی کہاں اب یہ خستہ حیاتی
عدو ہے کوئی ناں کوئی آشنا ہے
ذیشان احمد خستہ