- Advertisement -

اکبرؔ الہ آبادی کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری

از ڈاکٹرمحمد ابرارالباقی

اکبرؔ الہ آبادی کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری
از: ڈاکٹرمحمد ابرارالباقی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہء اردو ساتا واہانا یونیورسٹی
کریم نگر ۔ تلنگانہ

اکبرؔ الہ آبادی ایک ایسے شاعر کا نام ہے جس نے مغربی تہذیب‘ مسلمانوں کی مغربی تہذیب سے قربت‘معاشرے کے غلط رسم ورواج‘اپنے عہد کی سیاست اور اس دور میں چلنے والی تحریکو ں اور رجحانوں کے خلاف اپنی طنز و مزاح سے بھرپور ’’ رد عمل‘‘ کی شاعری کے ذریعے شہرت حاصل کی۔ اور ادب کی تاریخ میں ’’ لسان العصر‘‘ کا لقب حاصل کیا۔اکبرؔ کی اپنے عہد اور اور مغربی تہذیب کی مخالفت کی وجوہات جاننے کے لئے ہمیں ان کے حالات زندگی اوراس دور کے ہندوستا ن کے سیاسی وسماجی حالات سے واقف ہونا ضروری ہے۔

اکبرؔ کے آ با واجداد نیشا پور سے ہندوستان آئے تھے۔ انگریزوں کی جنگ پلاسی کے دوران اکبرؔ کے والد تفضل حسین نے انگریز فوج میں بہادری کے جوہر دکھائے ۔ انہیں بنگال کا صوبیدار مقرر کیا گیا۔ اکبرؔ 16نومبر1846 ؁ء کو پیدا ہوئے۔ اردو کے بیشتر محققین نے اور تاریخ ادب کی مختلف کتابوں میں اکبرؔ کا جائے پیدائش یوپی الہ آباد کا مقام بادہ لکھا ہے۔ لیکن ڈاکٹر تاج پیامی نے حالیہ تحقیق میں اپنی تصنیف’’ مزاحیہ شاعری اور چند مزاحیہ شعراء‘‘ مطبوعہ 2007 ؁ء دہلی میں اکبرؔ کے بھائی میر اکبر حسن کے فرزند سید محمد عباس کے ایک خط کے حوالے سے یہ انکشاف کیا ہے کہ اکبرؔ کا جائے پیدائش داؤد نگر ضلع گیا صوبہ بہار ہے۔اکبرؔ کے دادا سید فضل محمد آصف الدولہ کے دور میں لکھنؤ آئے ۔ بعد میں ان کا خاندان الہ آباد منتقل ہوگیا۔ اکبرؔ کے والد نے بھی الہ آباد میں ملا زمت کی چونکہ اکبرؔ بچپن ہی سے الہ آباد میں رہے تھے اس لئے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ الہ آبادی لفظ استعمال کیا اور وہی نام مشہور ہوا۔اکبرؔ کی ابتدائی تعلیم مشرقی ماحول میں مذہبی انداز میں ہوئی۔ وہ اپنے والد کے ساتھ سماع کی محفلوں اور مجالس عزا میں شریک ہوتے تھے۔اکبرؔ کی والدہ بھی نیک عبادت گذار خاتون تھیں۔زمانے کے دستور کے مطابق اکبرؔ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ‘جہاں انہوں نے عربی ‘فارسی‘اردو ‘ریاضی اور انگریزی پڑھی۔ انگریزی اور ریاضی سیکھنے میں اکبرؔ نے دلچسپی دکھائی۔الہ آباد اسکو ل میں داخلہ لیا۔ایک سال بعد 1857ء کے ہنگامے شروع ہوئے ۔ جس کی وجہہ سے اکبرؔ کو اپنی تعلیم ترک کرنی پڑی۔لیکن وہ گھر پر مسلسل پڑھتے رہے۔ انہوں نے ادب ‘فلسفہ اور مذہب کی کتابیں بھی پڑھیں۔ اس دوران انہوں نے انگریزی کتاب’’ فیوچر آف اسلام ‘‘ کا سلیس اور با محاورہ ترجمہ کیا۔غدر کے ہنگاموں کے بعد عام مسلمانوں کی طرح اکبرؔ کا خاندان بھی سخت مالی مشکلات کا شکار رہا۔ اس لئے اکبرؔ کو ملازمت کی فکر ہوئی۔ انہوں نے اپنی ملازمت کی ابتداء عرضی نویس کی حیثیت سے کی۔ محلے کے ایک وکیل سے محرری سیکھی۔ انہیں سر رشتہ داری کی نوکری ملی۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ وہ برابر اپنے طور پر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اپنی ذہانت کے سبب ہمیشہ اپنے درجوں میں ممتاز رہے۔ اکبرؔ کو قانون سے خاص لگاؤ تھا۔عدالت میں مسل خواں ہوئے۔1866 ؁ء میں مختاری کاامتحان کامیاب کیا۔ نائب تحصیلدا ر مقرر ہوئے۔عدالت خفیفہ کی منصفی پر مامور ہوئے۔ وکالت کا امتحان دیا اور سشن جج کے عہدے تک ترقی کی۔اکبرؔ کو ان کی جوڈیشری خدمات کے عوض 1898 ؁ ء میں ’’ خان بہادر‘‘ کا خطاب بھی ملا۔انہیں ہائی کورٹ کی ججی کا بھی موقع ملا تاہم خرابی صحت کی بنا1903 ؁ء میں قبل از وقت وظیفہ پر سبکدوش ہوگئے۔ اپنی ملازمت کے دوران اکبرؔ نے افسروں ‘ساتھیوں اور عوام پر اپنی قابلیت کا سکہ بٹھا لیا تھا۔
اکبرؔ کی شادی کم عمری میں تیرہ چودہ سال میں ہوگئی تھی۔ انہیں بیوی پسند نہیں تھی ۔ اس لئے ان کی ازدواجی زندگی ناخوشگور رہی۔ دو لڑکے عباد حسین اور نذیر حسین تھے۔ لیکن اکبرؔ نے بیوی بچوں میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ اکبرؔ کو موسیقی کا بہت شوق تھا۔ اس زمانے کے نوابوں کی طرح وہ اکثر موسیقی سننے طوائفوں کے کوٹھوں پر جایا کرتے تھے۔انہیں ایک طوائف بوٹا جان سے محبت ہوگئی ۔ جس سے انہوں نے شادی بھی کر لی۔ تھوڑے دن بعد اس کا انتقال ہوگیا۔ اکبرؔ کو اس کا شدید صدمہ ہوا۔ انہوں نے اس کی یاد میں ایک دلسوز مرثیہ بھی لکھا۔ بعد میں اکبرؔ نے ایک معزز خاندان کی لڑکی فاطمہ صغریٰ سے شادی کر لی۔ جس سے انہیں ایک بیٹی اور دو بیٹے ہوئے۔ بیٹی اور چھوٹا بیٹا ہاشم نوجوانی میں انتقال کرگئے۔ بڑے بیٹے عشرت حسین زندہ رہے۔ اکبرؔ نے انہیں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے ولایت بھیجا۔ وہ ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہے۔ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اکبرؔ شاعری اور اردو زبان کی خدمت میں لگ گئے۔ ان کے ادبی سرمایے میں کلیات اکبرؔ ‘مکاتیب اکبر اور فیوچر آف اسلام کا اردو ترجمہ شامل ہے۔ اکبرؔ کوآخری عمر میں صدمے اٹھانے پڑے۔وہ خود طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہے۔1910 ؁ء میں ان کی چہیتی بیوی فاطمہ صغریٰ کا انتقال ہوا۔ان کا لاڈلا بیٹا عین جوانی میں داغ مفارقت دے گیا۔اکبرؔ زندگی سے بیزارگی کا اظہار کرنے لگے۔ اکبرؔ کا انتقال 9ستمبر 1921 ؁ء کو الہ آباد میں ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔
اکبرؔ کے دور میں ہندوستان میں سیاسی‘ معاشی‘معاشرتی اور ادبی نقطہ نظر سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔اکبرؔ جب گیارہ سال کے تھے تب 1857ء کی ہندوستانیوں کی پہلی جنگ آزادی لڑی گئی۔ انگریز اسے غدر کہتے ہیں۔ غدر میں ناکامی کے بعد ہندوستان سے عظیم تر مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔وسیع وعریض ملک پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہوگیا۔اور ہندوستانی عوام انگریزوں کے غلام ہوگئے۔جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ ہوگیا۔ اقتدار پر آ تے ہی انگریزوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کئے۔وہ ہر طرح سے مسلمانوں کو کمزور کردینا چاہتے تھے۔ انگریزوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو کچل کر ہی اپنے قدم مضبوطی سے جمائے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک طرف مسلمانوں کے قتل و خون کا بازار گرم کیا گیا تو دوسری طرف مسلمانو ں کے تعلیمی نظام کو برباد کیا گیا۔ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے بر طرف کردیا گیا۔ ان کی جا گیریں ‘ منصب اور وظیفے ختم کردئے گئے۔متعدد افراد کو کالے پانی کی سزا سنائی گئی۔ بے شمار لوگوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ لاکھوں گھر اجڑ گئے۔ کل تک جو لوگ حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔شہزادے اور ولی عہد تھے وہ معذور ہوکر بھیک مانگتے دیکھے گئے۔ میرؔ نے مغل شہزادوں کے زوال کا منظر یوں بیان کیا تھا۔
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تخت و تاج کا
مسلمانوں کو سیاسی اور معاشی طور پر کمزور کرنے کے بعد انگریزوں نے مذہبی محاذ پر بھی سازشیں کیں اور عیسائیت کی تبلیغ کے علاوہ خود مسلمانوں کے دلوں میں مذہب اسلام کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا کئے۔ انگریزوں کے ساتھ ملازمت کرتے ہوئے اور ان کی تہذیب و تمدن اختیار کرتے ہوئے مسلمان اسلامی اقدار سے دور ہونے لگے۔ انیسویں صدی کے ان ہی سیاسی و سماجی حالات کا اکبرؔ نے قریب سے جائزہ لیا۔ وہ خود بھی دوران ملازمت انگریزوں سے کافی قریب رہے تھے۔ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کو انگریزی تہذیب کے برے اثرات سے نہ روکا گیا تو مسلمانوں کا اسلامی تشخص ختم ہو جائے گا۔چنانچہ انہوں نے طنز و مزاح کو اصلاح کا ذریعہ بنایا اور اپنی شاعری پیش کی۔
اکبرؔ اردو میں طنز و مزاح کے نمائندہ شاعر ہیں۔ کلیات اکبرؔ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے غزل ‘ نظم‘رباعی ‘قطعات اور کئی متفرق اشعار پر مبنی اپنی طنز و مزاح اور سنجیدہ شاعری کو پیش کیا ہے۔اکبرؔ ایک فطری شاعر تھے۔ بچپن سے شعر کہنے لگے تھے۔اس زمانے کے مشہور شاعر غلام وحید سے اصلاح لیتے تھے۔ اکبرؔ نے اپنی شاعری کی ابتداء روایتی طرز کی غزل گوئی سے کی۔ان کے ابتدائی کلام میں رنگینی‘شوخی اور روایتی لب و لہجہ میں ہجر و وصال کا بیان ہے۔زبان کا چٹخارہ‘روایت لفظی کا اہتمام اور دور ازکار تشبیہات کا استعمال ان کے کلام میں دکھائی دیتا ہے۔ اودھ پنچ کی طنز و مزاح کی تحریک کے آغاز کے ساتھ اکبرؔ مزاحیہ شاعری کرنے لگے ۔ ابتداء میں ان کے ہاں ابتذال بھی تھا۔ اکبرؔ کہتے ہیں۔
بہت ہی بگڑے وہ کل مجھ سے پہلے بوسے پر ۔ ۔ خوش ہوگئے آخر کو تین چار کے بعد
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق ہے اتنا ۔۔ کہ یہ جامے سے باہر ہے اور وہ پاجامے سے باہر ہے
اکبرؔ نئی تعلیم کے باب میں اس وجہہ سے شک و شبہ میں مبتلا تھے کہ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں اس سے مسلمانوں پر مغربی خیالات‘ مغربی تہذیب و تمدن اور مغرب کی لا دین سو سائٹی کا رنگ ان پر غالب نہ آجائے ۔سرسید سے ان کا بنیادی اختلاف اسی وجہہ سے تھا۔ کالج کا نام لے کر انہوں نے اپنے طنز کو یو ں پیش کیا۔
ابتدا کی جناب سید نے ۔۔ جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونیورسٹی پر ہوئی ۔۔ قوم کا کام اب تمام ہوا
نظر ان کی رہی کالج میں بس علمی فوائد پر۔۔ گراکے چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر
کالج کی تعلیم کے مضر اثرات کو اجاگر کرتا اکبرؔ کا یہ شعر کافی مشہور ہوا۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا۔۔ افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اکبرؔ کالج میں پڑھنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندہء عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
اکبرؔ پر اکثر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ انگریزی تعلیم کے خلاف تھے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ اکبرؔ نے خود جستجو کے ساتھ انگریزی پڑھی تھی۔ اور بعد میں اپنے صاحبزادے عشرت حسین کو بھی اعلی تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ بھیجا تھا۔ اپنی ایک نظم میں وہ ایک ذمہ دار باپ کا فرض نبھاتے ہوئے عشرت حسین کو یوں نصیحت کرتے ہیں۔
مغرب کے مرشدوں سے تو پڑھ چکا بہت کچھ۔۔ پیران مشرق سے اب فیض کی نظر لے
اکبرؔ نے اپنے قول و فعل میں تضاد نہیں برتا۔ وہ مغرب کی سائنسی ایجادات اور مغربی علوم کے خلاف نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان مشرقی اقدار کی پاسداری کے ساتھ مغرب کی قوموں کی طرح علم و ہنر سیکھیں۔ اور دیگر فنون میں مہارت پیدا کریں۔
اس ضمن میں وہ کہتے ہیں۔
وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو صنعتیں سیکھو ہنر سیکھو
بڑھاؤ تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو
خواص خشک و تر سیکھو علوم بحر و بر سیکھو
خدا کے واسطے اے نوجوانو ہوش میں آؤ
دلوں میں اپنے غیرت کو جگہ دو ہوش میں آؤ
اس دور میں کالج کی تعلیم کا بنیادی مقصد انگریزی ملا زمتوں کا حصول تھا۔ لیکن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مسلمانوں میں بیروزگاری عام تھی۔ جس جانب اشارہ کرتے ہوئے اکبرؔ کہتے ہیں۔
کالج میں دھوم مچ رہی ہے پاس پاس کی ۔۔ عہدوں سے آرہی ہے صدا دور دور کی
اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم کے نام پر بے پردگی‘ مردوں کی مجلسوں میں عورتوں کی شرکت‘ مغربی لباس‘ مغربی طرز کی دعوتیں‘ کلب ناچ گھر وغیرہ میں مسلمان گھرنے لگے تھے۔ اکبرؔ نے لڑکیوں کی بے پردگی پر چوٹ کرتے ہوئے اپنا یہ مشہور قطعہ کہا۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھاجو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
ایک مصلح قوم کی طرح اکبرؔ پردے کا نقصان بیان کرتے ہیں۔
نہیں رہے گی وہ خوبی جو زن ہے بے پردہ ۔۔ سبب یہ ہے کہ نگاہوں کی مار پڑتی ہے
لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح مصلح اکبرؔ کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ اور لڑکیوں کے عمل سے انہیں جواب ملتا ہے۔
غریب اکبرؔ نے بحث پردے کی‘ کی بہت مگر ہوا کیا ۔۔ نقاب الٹ ہی دی اس نے کہہ کر کہ کر ہی لے گا مگر ہوا کیا
اکبرؔ ایک زمانہ شناس تھے۔ماہر نباض تھے۔ انہوں نے زمانے کی نبض دیکھ کر کھری کھری باتیں سنائیں۔ وہ نہ صرف طنز پر اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ ایک حاذق حکیم کی طرح مرض کا علاج بھی بتاتے ہیں۔ اپنی نظم’’ تعلیم نسواں‘‘ میں اکبرؔ نے مشرقی اقدار کی حامل ہندوستانی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی تفصیلات بیان کی ہیں۔اس نظم میں انہوں نے عورتوں کو امور خانہ داری سیکھنے‘سینا پرونا سیکھنے ضروری حساب کتاب سیکھنے مذہب کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرنے اور زندگی کے دوسرے کام سیکھنے کی تلقین کی۔نظم کا آغاز انہوں نے اس طرح کیا۔
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے ۔۔ لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے
نظم کے آخری اشعار میں وہ مشرقی عورتوں کو یوں نصیحت کرتے ہیں۔
پبلک میں کیا ضرور کے جاکر تنی رہو ۔۔ تقلید مغربی پہ عبث کیوں ٹھنی رہو
داتا نے دھن دیا ہے تو دل سے غنی رہو۔۔ پڑھ لکھ کے اپنے گھر ہی دیوی بنی رہو
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے ۔۔ مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے
دنیا میں لذتیں ہیں نمائش ہے شان ہے ۔۔ ان کی طلب میں حرص میں سارا جہان ہے
اکبرؔ سے سنو کہ جو اس کا بیان ہے ۔۔ دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے
حد سے جو بڑھ گیاتو ہے اس کا عمل خراب
آج اس کا خوشنما ہے مگر ہوگا کل خراب
اکبرؔ نے مسلمانوں کے مغربی طرز و ادا اختیار کرنے پر بھی اپنے شدید طنز کا اظہار کیا ہے۔ انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے کلام میں نیا رنگ پیش کیا ہے۔ اکبرؔ کہتے ہیں۔
حرم میں مسلموں کے رات انگلش لیڈیاں آئیں ۔۔ پئے تکریم مہمان بن سنور کر بیبیاں آئیں
طریق مغرب سے ٹیبل آیا کرسیا ں آئیں ۔۔ دلوں میں ولولے اٹھے ہوس میں گرمیاں آئیں
مرید دہر ہوئے وضع مغربی کرلی ۔۔ نئے صنم کی تمنا میں خود کشی کرلی
تھے کیک کی فکر میں سو روٹی بھی گئی ۔۔ چاہی تھی شے بڑی سو چھوٹی بھی گئی
واعظ کی نصیحتیں نہ مانیں آخر ۔۔ پتلون کی تاک میں لنگوٹی بھی گئی
اکبرؔ مغربی تہذیب سے اس قدر سہمے ہوئے تھے کہ انہیں مغرب کی لائی ہوئی سائنس و ٹیکنالوجی سے بھی ڈر ہونے لگا تھا۔اس سے وہ مشرقی اقدار کا نقصان محسوس کرنے لگے تھے۔ اکبر ؔ کہتے ہیں۔
برق کے لیمپ سے آنکھوں کو بچائے رکھنا ۔۔ روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے
اگر اکبر ؔ کے اشارے اور برق کو آج کے دور میں ٹیلی ویژن ‘سیل فون اور انٹرنیٹ سے بدل کر دیکھیں تو آج مغرب کی یہ سائنسی دریافتیں اپنے غلط استعمال کے سبب مشرقی تہذیب‘انسانی اقدار اور اسلامی تشخص کو شدید نقصان پہونچا رہے ہیں۔ایسے میں اکبرؔ ہی ہمیں دور اندیش دکھائی دیتے ہیں۔
اکبر ؔ نے جہاں بھی سرسید سے اختلاف کیا ان کا اختلاف شخصی نہیں بلکہ نظریاتی تھا۔ اکبر ؔ نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ سرسید کو خراج بھی پیش کیا ہے۔ اکبر ؔ کہتے ہیں۔
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے ۔۔ نہ بھولو فرق ہے جو کہنے والے اور کرنے والے میں
واہ اے سید پاکیزہ گہرکیا کہنا ۔۔ یہ دماغ اور حکیمانہ نظر کیا کہنا
قوم کے عشق میں یہ سوز جگر کیا کہنا۔۔ ایک ہی دھن میں ہوئی عمر بسر کیا کہنا
سرسید اور حالی کی طرح اکبر ؔ بھی اصلاح پسند کے طور پر سامنے آتے ہیں۔اس پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے صدیق الرحمٰن قدوائی لکھتے ہیں۔
’’ اکبرؔ کے نزدیک شاعری کا مقصد زندگی کی تنقید و اصلاح تھا۔۔۔ سرسید تحریک کے علمبرداروں نے اور اکبر ؔ نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق شاعری کے ذریعے قومی اصلا ح کی کوشش کی۔سماجی اعتبار سے متضاد نقطہ نظر رکھنے کے باوجود سرسید حالی اور اکبر ؔ یکساں ادبی نقطہ نظر کے حامل تھے‘‘۔
(صدیق الرحمٰن قدوائی۔انتخاب اکبر ؔ الہ آبادی۔دہلی 1994 ؁ء)
اکبر ؔ کی اصلاح پسندی کا آگے چل کر ایک لحاظ سے فائدہ بھی ہوا۔ اور مسلمانوں میں کئی نامور شخصیات ان کے پیغام کو آگے بڑھانے لگیں۔ اکبر ؔ کے اثرات کاتجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی لکھتے ہیں:
جدید تعلیم نے ان لوگوں کو بھی جنم دیا جنہوں نے آزادی کی جدو جہد میں نمایاں کردار ادا کیا۔اور جن کی دین سے وابستگی ‘اسلام سے عشق‘مسلمانوں کا درد‘مشرق کی سربلندی کا احساس اپنا ثبوت آپ ہیں۔ اسی علی گڑھ میں جس کے اکبرؔ مخالف تھے۔مولانا ظفر علی خاں جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی ساری زندگی انگریزی حکومت اور اس کی قوت کے خلاف جد و جہد میں گذاری اور بیشتر حصہ اس زندگی کی قید فرنگ میں کٹا۔علی گڈھ سے باہر بھی اسی مغربی تہذیب نے علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح بھی پیدا کئے۔
(ابواللیث صدیقی۔آج کا اردو ادب۔ص ۶۹۔علی گڈھ۔۱۹۹۸ ؁ء)
اکبر ؔ کے کلام میں طنز ‘ظرافت ‘ مزاح اور سنجیدہ پن سب کچھ ہے۔ان کا طنز چبھتا ہوا ہوتا ہے۔ اکبر ؔ کہتے ہیں۔
بنگلوں سے نماز اور وظیفہ رخصت ۔۔ کالج سے امام ابو حنیفہ رخصت
صاحب سے سنی ہے اب قیامت کی خبر۔۔ قسطنطنیہ سے ہیں خلیفہ رخصت
کالج سے جنہیں امیدیں ہیں مذہب کو بھلا کیا مانیں گے
مغرب کو تو پہچانا ہی نہیں قبلے کو وہ کیا پہچانیں گے
اکبر ؔ کے کلام میں جا بجا ظرافت ملتی ہے۔
عمر گذری ہے اسی بزم کی سیاحی میں ۔۔ دوسری پشت ہے چندے کی طلب گاری میں
بتاؤں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہوگا ۔۔ پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
کچھ صنعت و حرفت پہ بھی لازم ہے توجہ ۔۔ آخر یہ گورنمنٹ سے تنخواہ کہاں تک
اکبر ؔ نے اپنے کلام میں انگریزی الفاظ بہت استعمال کئے ہیں کبھی لفظوں کی الٹ پھیر سے انہوں نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
؂ عاشقی کا ہو برا اس نے بگاڑے سارے کام ۔۔ ہم توABمیں رہے اغیار BAہوگئے
؂ بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے ایک مضمون لکھا۔۔ ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

اکبرؔ نے اپنے کلام میں شیخ‘واعظ‘مولوی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔اور ان کی اصطلاحوں سے مزاح پیدا کیا
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا
؂ مے خانہ رفارم کی چکنی زمین پر ۔۔ واعظ کا خاندان بھی آخر پھسل گیا
اردو شاعری میں شراب کو انگور کی بیٹی کہا گیا ہے ۔اس ترکیب سے مزاح کا پہلو نکالتے ہوئے اکبر ؔ کہتے ہیں۔
دختر رز نے اٹھا رکھی ہے آفت سر پر۔۔ خیریت گذری کہ انگور کو بیٹا نہ ہوا
اکبرؔ کے کلام میں طنز و مزاح کے ساتھ سنجیدہ اشعار بھی ملتے ہیں۔یاسیت اور سادگی کا اظہار کرتے ہوئے اکبر ؔ کہتے ہیں۔
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں ۔۔ بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی ۔۔ ہر چند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں
اس خانہ ء ہستی سے گذر جاؤں گا بے لوث ۔۔ سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں
وہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے ۔۔ الجھوں کسی دامن سے وہ خار نہیں ہوں
اکبرؔ کے ہاں نظیرؔ کا سا رنگ پایا جاتا ہے۔ نظیرؔ نے اپنی نظم ’’آدمی نامہ‘‘ میں انسانوں کی جو کیفیات بیان کی ہیں اس کی ایک جھلک اکبرؔ بھی دکھاتے ہیں۔
کوئی ہنس رہا ہے کوئی رو رہا ہے ۔۔ کوئی پا رہا ہے کوئی کھو رہا ہے
کوئی تاک میں ہے کسی کو ہے غفلت ۔۔ کوئی جاگتا ہے کوئی سو رہا ہے
کہیں نا امیدی نے بجلی گرائی ۔۔ کوئی بیج امید کے بو رہا ہے
اسی سوچ میں تو رہتا ہوں اکبرؔ
یہ کیا ہو رہا ہے یہ کیوں ہورہا ہے
اکبرؔ کے کلام میں جابجا دنیا کی بے ثباتی کا ذکر ملتا ہے۔ اکبرؔ کہتے ہیں۔
؂ دنیا ابھارتی ہے آج اپنے عاشقوں کو ۔۔ مرجائیں گے تو ان کا کل نام بھی نہ لے گی
جنت بنا سکے گا ہر گز نہ کوئی اس کو ۔۔ دنیا یوں ہی چلے گی‘اکبرؔ یوں ہی چلے گی
جب زندگی مسائل سے دوچار رہتی ہے تو انسانوں کے ساتھ ان کی زبان بھی مسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔ انگریزی دور میں اردو کے تاریک مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اکبر کہتے ہیں۔
فارسی اٹھ گئی اردو کی وہ عزت نہ رہی ۔۔ رہے زبان منہ میں مگر اس کی قوت نہ رہی
بند کر اپنی زباں ترک سخن کر اکبرؔ ۔۔ اب تری بات کو دنیا کی ضرورت نہ رہی
اکبرؔ کے کلام میں متفرق اشعار کی کثرت ہے۔ وہ اچھے خیال کو دو چار شعر میں پیش کردیتے ہیں اور پھر اظہار کا پیمانہ بدل دیتے ہیں۔اکبرؔ نے نظموں اور غزلوں کے علاوہ رباعیات بھی کہی ہیں۔ ان کی رباعیاں اخلاقی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ پند و نصیحت اوررباعی کے دیگر موضوعات ان کے ہاں پائے جاتے ہیں۔اکبرؔ کی دو رباعیاں اس طرح ہیں۔
اونچا نیت کا اپنی زینا رکھنا
احباب سے صاف اپنا سینا رکھنا
غصہ آنا تو نیچرل ہے اکبرؔ
لیکن ہے شدید عیب کینا رکھنا
گر جیب میں زر نہیں تو راحت بھی نہیں
بازو میں سکت نہیں تو عزت بھی نہیں
گر علم نہیں تو زور وزر ہے بے کار
مذہب جب نہیں تو آدمیت بھی نہیں
اکبرؔ نے اپنی ایک مسلسل غزل میں مستقبل کا نقشہ کھینچا ہے۔ اکبرؔ کو ہم سے جدا ہوئے تقریبا 90 سال ہو چکے ہیں۔ لیکن انہوں نے آنے والے زمانے کا جو اندازہ لگایا تھا وہ لفظ بہ لفظ سچ ہورہا ہے۔ اکبرؔ کی پیشن گوئیاں ملاحظہ ہوں۔
یہ موجودہ طریقے راہی ملک عدم ہونگے۔۔ نئی تہذیب ہوگی اور نئے سامان بہم ہوں گے
نئے عنوان سے زینت دکھائیں گے حسیں اپنی ۔۔ نہ ایسا پیچ زلفوں میں نہ گیسو میں یہ خم ہوں گے
نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی پابندی ۔۔ نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے
بدل جائے گا انداز طبائع دور گردوں سے۔۔ نئی صورت کی خوشیاں اور نئے اسباب غم ہوں گے
خبر دیتی ہے تحریک ہوا تبدیل موسم کی ۔۔ کھلیں گے اور ہی گل ‘زمزمے بلبل کے کم ہوں گے
عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت سے ۔۔ نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے
بہت ہوں گے مغنی نغمہء تقلید یورپ کے ۔۔ مگر بے جوڑ ہوں گے اس لئے بے تال و سم ہوں گے
ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہو گی ۔۔ لغات مغربی بازار کی بھاشا سے ضم ہوں گے
بدل جائے گا معیار شرافت چشم دنیا میں ۔۔ زیادہ تھے جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے
گزشتہ عظمتوں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گے۔۔ کتابوں ہی میں دفن افسانہ جاہ وحشم ہوں گے
کسی کو اس تغیر کا نہ حس ہوگا نہ غم ہوگا ۔۔ ہوئے جس ساز سے پیدا اسی کے زیر و بم ہوں گے
تمہیں اس انقلاب دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ
بہت نزدیک ہیں وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے
اکبرؔ نے مندرجہ بالا اشعار میں آنے والے زمانے کی جو تصویر پیش کی ہے وہ اکیسویں صدی میں بالکل سچ ثابت ہورہی ہے۔اس طرح اکبرؔ ایک دور اندیش شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
اکبرؔ کی شاعری پیامیہ شاعری ہے۔ ان کی شاعری سے انسانوں کو وطن دوستی‘ مشرقی تہذیب سے محبت کا سلیقہ اور اعلی انسانی اقدار کی پاسداری کا سبق ملتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اکبرؔ کی شاعری سے ملنے والی فکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ اکبرؔ کی شاعری اور ان کا تہذیبی زاویہء نظر ہمیں آج بھی دعوت فکر دیتا ہے ۔۔۔اکبرؔ کی آواز وہ آواز ہے جو نہ صرف پاکستان وہندوستان کو بلکہ سارے ایشیا کو زندہ رہنے اور خود کو از سر نو دریافت کرنے کی دعوت دیتی ہے۔اکبرؔ جیسا شاعرایشیا کی کسی بھی دوسری زبان میں مجھے نظر نہیں آتا۔ جس نے مغربی تہذیب کے غلبے سے بچنے کے لئے جس دلچسپ اوراور دلکش انداز میں اپنی جڑوں سے پیوستہ رہنے کی تلقین کی ہو۔اور قوموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو زندہ و باقی رکھنے کا گر سکھایا ہو۔اس لئے میں اکبرؔ کو صرف مزاحیہ شاعر نہیں بلکہ جدید فلسفی شاعر سمجھتا ہوں‘‘۔
(ڈاکٹر جمیل جالبی۔ معاصر ادب۔ ص ۔۱۶۴۔دہلی۔۱۹۹۶)
ادب کا کام تنقید حیات بھی ہے۔ اور یہ سلسلہ زندگی کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔جب تک اعلی انسانی اقدار باقی رہیں گی اور ان کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی اس وقت تک اکبرؔ کی شاعری سے ہمیں زندگی کے لئے روشنی حاصل ہوتی رہے گی۔ اردو کاعام قاری اکبرؔ کے ظرافت سے بھر پور اشعار پڑھ کر ہنسے گا اور مسکرائے گا۔ لیکن کسی تحریر کے پس پردہ پیغام کو سمجھنے والے اکبرؔ کی شاعری کے پیغام سے مستفید ہوتے رہیں گے۔ اردو شاعری کے نقادوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اکبرؔ کی شاعری کی عصری حسیت کو اپنی تنقیدوں کے ذریعے عام کرتے رہیں۔اس طرح کی کوشش اکبرؔ کی شاعری کو حقیقی خراج سمجھی جائے گی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو افسانہ از واجدہ تبسم