لے گیا بچا کر وہ دل کے ساتھ سر اپنا
جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا
زندگی کے ہنگامے دھڑکنوں میں ڈھلتے ہیں
خواب میں بھی سنتے ہیں شور رات بھر اپنا
دل کے ہر دریچے میں جھانکتے ہیں کچھ چہرے
خود کو راہ میں پایا رُخ کیا جدھر اپنا
کون کس سے الجھا ہے، ایک شور برپا ہے
جا رہاہے دیکھو تو قافلہ کدھر اپنا
خیر ہو ترے غم کی شام ہونے والی ہے
اور کر لیا ہم نے ایک دن بسر اپنا
رنگ زندگی دیکھا کچھ یہاں وہاں باقیؔ
غم غلط کیا ہم نے کچھ اِدھر اُدھر اپنا
باقی صدیقی