آپ کا سلاماردو تحاریرتحقیق و تنقیدساحل سلہریمقالات و مضامین

دلشاد نظمی کی نظم نگاری

معاصر حالات ومسائل کے تناظر میں

معاصر اردو نظم کے نمایندہ شاعر دلشاد نظمی 21 جنوری 1965ء کو ہندوستان کی ریاست جھارکھنڈ کے معروف شہر جمشید پور میں فضل کریم کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ میٹرک تک سنٹرل کریمیہ سکول جمشید پور میں زیر تعلیم رہے۔انھوں نے کریم سٹی کالج جمشید پور سے گریجوایشن کرنے کےبعد ملازمت اختیار کر لی۔ پہلے وہ 6سال تک ٹاٹا آئرن کمپنی جمشید پور(بھارت) میں ملازمت کرتے رہے ازاں بعد انھوں نےروزگار کے سلسلے میں سعودی عرب جا کر سکونت اختیار کر لی۔ انھوں نے کم وبیش 11 سال تک سعودی آئرن اینڈ سٹیل کمپنی میں کام کیا۔دلشاد نظمی نے اپنی شاعری کا آغاز اردو غزل سے کیا۔ غزل جیسی مقبول صنف میں مقام واعتبار حاصل کرنے کے بعد وہ بہت جلد نظم کی طرف راغب ہو گئے۔ معاصر شعری منظر نامے کو دیکھیں تو ہمیں متعدد شعرا ایسے نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنا شعری سفرتو غزل سے شروع کیالیکن بعد میں نظم نگاری میں اتنی مقبولیت پائی کہ نظم کی ان کے تعارف کا حوالہ بن گئی۔ پاکستانی معاصر اردوشاعری میں اس کی ایک اہم مثال میرے دیرینہ دوست ڈاکٹر جواز جعفری ہیں جنھوں نے غزل میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد مسلسل نظم نگاری شروع کر دی ہے۔ جواز جعفری کی نظموں کے الگ بھک پانچ مجموعے اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں ان کی طویل نظمیں منصہء شہود پر آئی ہیں۔ بالکل ایسی ہی صلاحیت میں ہندوستانی شاعردلشاد نظمی میں دیکھتا ہوں کہ ان کا شعری وفور اس قدر ذرخیز ہے کہ انھوں نے اپنےغزلیہ مجموعے ” کوئی ایک لمحہ رقم نہیں” کی اشاعت کے بعدنہایت قلیل عرصے میں اپنی نظموں کا مجموعہ "احتجاج لفظوں کا” اردو ادب کے قارئین کی نذر کیا ہے۔ دلشاد نظمیں کا یہ مجموعہ اردو نظم کے باب میں بہترین اضافہ ثابت ہوا ہے۔
مختصر طرز کے بیانیے اور افسانوی جہت کے حامل شاعر دلشاد نظمی کی پذیرائی باعث فخروانبساط ہے۔ وہ اردو نظم نگاری میں ہندوستان بھر میں جھار کھنڈ کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ehtajaj ان کی فکر انگیز نظمیں اور پیشکش کا انداز بہار وجھارکھنڈ کی آبرو ہے۔ ان کی نظموں کا اسلوب منفرد اور دل پذیر ہے۔ اس بات کا اندازہ ان کی نظموں کے مطالعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جھارکھنڈ کی ادبی فضا سے نمودار ہونے والے اس فکر انگیز نظم نگار کی شاعری مذہبی تعصب سے محفوظ ہے۔ وہ ہندی محفلوں میں بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنی اردو کی مجلسوں میں پہچان رکھتے ہیں۔دلشاد نظمی کا شعری لحن ذرا افسانوی معلوم ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاشرے کی حقیقتوں ، ماحول اور تہذیب کو نظموں کا حصہ بناتے ہیں۔ حقیقت نگاری کرتے ہوئے بسا اوقات ان کی نظمیں افسانوی رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ اس ضمن میں ان کی نظم "بھوگ” ملاحظہ کیجیے:
آٹھ برس کی چنچل کملا
اس دن بھی تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی
اور تتلی کہ
اس کے ہاتھ نہیں آتی تھی۔
تتلی کی لالچ میں نہ جانے
اونچی سیڑھیاں کب چڑھ بیٹھی
ماں درگاہ مندر کے آنگن میں وہ تتلی جا بیٹھی تھی
ہاتھ بڑھا کے پکڑا تھا کہ
بڑے زور کی گرج نے اس کو اندر تک دہلا کے رکھ دیا
دشٹ،،،ہریجن،نیچ،کمینی،،،
تُو مندر میں؟
سہم گئی اک لمحے میں معصوم سی کملا
گھونسے، لاتوں کی زد میں معصوم سی بچی چیخ رہی تھی
سمجھ نہ پائی ایسا کیوں ہے
کچھ ہی چھنوں کے بعد اچانک
کام دیو میں
بھوگ لگانے کی اچھائیں جاگ گئیں تو
پنڈے نے چیلوں کی نگرانی میں اپنا بھوگ لگایا
پھر پرشاد انھیں بھی بانٹا
لیکن جاتے جاتے کہہ گیا
بچہ۔۔۔
جھوٹھا، پتل۔مندرکی پچھلی کھائی میں الٹا دینا
گدھ جناور موج کریں گے
گھر کے باہر، اک کونے میں گھڑے کا سارا پانی اپنے سر پر الٹ کر
ہری اوم کا جاپ کیا اور
دبی زبان سے کہتا گیا
دھت ،،،،
بھرسٹ کردیا دھرم ہمارا
نیچ، کمینی۔ پاپی ہریجن ، کلموہی نے،،،،،،
دلشاد نظمی نے اپنی شاعری میں لفظوں کی پلاٹ سازی ، جزئیات نگاری سے معنویت اور فکر کا ایک نظام بنایا ہے۔ انھوں نے نظمیہ آرٹ سے موجودہ سماج کے حقیقی واقعات کی عکاسی کی ہے۔ ان کی نظموں میں خیال کی ندرت اور فکر کی جدت سرشاری عطا کرتی ہے۔ ان کے شعری تلازمے مسائل زیست کے ترجمان ہیں۔ ان کی نظموں کا خمیر ماحول سے اٹھتا ہے۔ وہ نظموں میں افسانوی سا منظر بنا لیتے ہیں۔ دلشاد نظمی چشمِ حیرت، تعجب وتجسس کا نمائندہ شاعر ہے۔ ان کی نظمیں داستاں کی وادی سے نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ وہ عصری شعور کی رو میں اپنا شعری ڈکشن رنگتے ہیں۔ ان کی منظر کشی کا اندازاور حالات ومعاملات کا بیان اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ وہ اپنے ماحول اور ریتل سے جڑے ہوئے شاعر ہیں۔
دلشاد نظمی موجودہ دور میں نظم نگاری کی راہ روشن کرنے والے اہم نظم نگار ہیں۔ ان کی نظموں میں زیادہ تر سیاسی وسماجی مسائل ومعاملات کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس لیے ان کی شاعری عوام کے شعور کو بیدار کرتی چلی جاتی ہے۔ وہ زیادہ تر عصر حاضر کے حالات کو اپنی نظموں کا موضوع بناتے ہیں۔dilshad nazmiان کی نظموں میں طبقاتی کشمکش، جنسی مسائل ، بھوک، افلاس، بےروزگاری اور عام آدمی کے مسائل کا ذکر ملتا ہے۔ ان کی نظمیں سماجی حقیقت نگاری کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ان کی نظموں میں ان کا احتجاج بلند ہوتا دکھائی دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاعری نہیں احتجاج کرتے ہیں۔ ان کی شاعری ان کے احتجاج کا اظہاریہ معلوم ہوتی ہے۔ ان کی شاعری کا لفظ لفظ احتجاج کرتا نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں دیکھیں تو انھوں نے اپنی نظموں کے مجموعے کا نام بھی”احتجاج لفظوں کا”رکھا ہے۔ یہ اس بات کا عمدہ ثبوت ہے۔ ان کی نظم”دیوار” قابلِ توجہ ہے، اس میں سماجی حقیقت نگاری ملاحظہ کیجیے:
آنگن میں اٹھتی دیوار کو دیکھ رہے تھے
دونوں طرف کے گھورتے چہرے
چہروں پر رشتوں کی کوئی رمق نہیں تھی
بجھے ہوئے بے رنگ سے چہرے
ویسے تھے سب خون کے رشتے
بچوں کے ذہنوں پر پہلے
بڑوں نے شاید، الگ کہانی ڈال رکھی تھی
بڑاساآنگن چھوٹا ہوتا دیکھ رہے تھے
اونچی ہوتی لال اینٹ کی اس دیوار نے
ہر سمبندھ کوکاٹ دیا تھا
دو چولہے ، دو آنگن
شاید دو دو کرکے
اک گھر کی ساری چیزوں کو ، آدھا آدھا بانٹ دیا تھا
کاٹ دیا تھا ہر بندھن کو
بیچ آنگن میں چھاؤں بانٹتا تنہا برگد
سوچ رہا تھا
بڑھتی ہوئی دیوار کے رستے پر میں کھڑا ہوں
دونوں طرف نفرت سے بھری آنکھوں میں اب کہ
میری رکاوٹ چبھنے لگی ہے
کاٹ دیا جاؤں میں شاید
لیکن گھر کے بوڑھے مالی
ماں اور بابا
جن کے ہاتھوں نے سینجا تھا میرے بدن کو
ان کو یہ دو آنگن والے
کہاں رکھیں گے؟؟؟؟
دلشاد نظمی نے اس نظم میں ہمارے معاشرتی رویے کی عکاسی کی ہے۔ انھوں نے ایک حقیقت کو شعری پیکر میں ڈھال کر روزمرہ کے گھریلو حالات کی روداد بیان کی ہے۔ اس نظم میں انھوں نے ہندی الفاظ کا بھی استعمال کیا ہے۔ انھوں نے اپنے کلچر میں رہتے ہوئے رشتوں اور اخلاقی اقدار کی پامالی کو موضوع بنایا ہے۔ مشرقی تہذیب واقدار کے مسائل کو موضوع بناتے ہوئے دلشاد نظمی نے بھائیوں کے درمیان جائیداد کے بٹوارے پر اٹھنے والے تنازعات اور بزرگ والدین کو بوجھ سمجھنے والی اولاد کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے زندگی کو بے حد قریب سے دیکھا ہے۔ وہ معاشرتی حقیقت نگاری کرتے ہوئے بھی احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سچ کہنے کا حوصلہ ہی دراصل ان کا احتجاج ہے۔ ان کی نظموں میں مزاحمتی اظہار ملاحظہ کیجیے:
ہمارے ہاتھ کے پتھر
حدف پہچانتے ہیں سب
غلیلوں کو نشانہ سادھنا بھی خواب آتا ہے
تمھاری گولیوں کے درمیاں ہر دم
یہی بے خوف پتھر اڑتے پھرتے ہیں
ہمارے جسم لاشوں میں بدلنے کے ہنر سے خوب واقف ہیں
لہو کا سب سے پہلا قطرہ گرنے کے کا بدل معلوم ہے ہم کو
ہمیں معذور مت سمجھو
یہی جذبہ ہمیں آمادہ رکھتا ہے
شہادت کے لیے ہر دم
ہے فانی جسم لیکن ، روح تو لافانی ہوتی ہے
شہیدوں کو کبھی کیا موت آئے گی؟
دلشاد نظمی کی نظمیں معاشرے کے مختلف رنگ پیش کرتی ہیں۔ شاعر اپنی معاشرت سے جڑت کا اظہار کرتے ہوئے مختلف انداز میں نظمیں کہتا ہے۔ ان کی نظمیں مختلف دکھوں کا نوحہ ہیں۔ وہ ایک مفلوک الحال دیہاتی آدمی کا دکھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ بیچارہ انٖصاف پانے کے لیے کس طرح تھانے میں ذلیل وخوار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں دلشاد نظمیں کی نظم” انصاف” دیکھیے:
اک مفلوک الحال دیہاتی
بدھوا۔۔۔۔
تھانے کی سیڑھی پر اپنے سر کو جھکائے
ہاتھوں کو جوڑے
پڑا ہوا ہے
صاحب نکلیں تو اپنی بپتا بتلائے
صاحب جی آفس کے اندر
جانے کب سے
کن لوگوں میں الجھے ہوئے ہیں
کتنے گھنٹے بیت چکے ہیں
بدھوا کے آنسو بہہ بہہ کر سوکھ چکے ہیں
لو بھوجن کا سمئے ہوا
اب صاحب نکلے
ایک نظر بدھوا کو دیکھا
جھٹ سے کھڑے ہوتے بدھوا کو دیکھ
حقارت سے یہ پوچھا
کابے بوڑھوا،،،،،،کاہے آیا۔۔۔؟؟؟
دلشاد نظمی کی شاعری میں اس طرح کے کئی مسائل کا ذکر ملتا ہے۔ ان کی نظمیں پڑھتے ہوئے قاری براہ راست اس ماحول اور منظر میں چلا جاتا ہے جس کا شاعر نے ذکر کیا ہے۔ قاری خود کو بھی اس مصیبت ،پریشانی کا حصہ سمجھتا ہے۔ وہ دوسروں کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھنے لگتا ہے۔ دلشاد نظمی نے اپنی نظموں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مقدس مقامات کی تصویر کشی کی ہے۔ وہ بہار وجھارکھنڈ کے روزمرہ کے الفاظ ومحاورات کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ وہ مذہب وجنون کو دل ودماغ پرحاوی کر کے دوسروں کو اذیت دینے والوں کیdilshad nazmi مذمت کرتے ہیں۔ وہ مذہبی تصادم کو خوفناک قرار دیتے ہیں۔ اس سے معاشرے کا امن تباہ ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اس حد بندی کو بانس کا بارڈر کہتے ہیں۔ وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے ناموں عائشہ ،طاہر ،بِملااور کرشنا کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ ان ناموں کو علامت کے طور پر استعمال کرکے مسلم اور ہندو معاشرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ تہواروں کو سیاسی رنگ دینے پر احتجاج کرتے ہیں۔ وہ خوف بھرے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں جس میں ایک مسلم لڑکی اپنی ایک ہندوسہیلی کے گھر جانے سے قاصر ہے ۔ہندوستان میں اکثر دیکھا گیا ہے مذہبی تہواروں کے دوران کچھ دنوں کے آپس میں روزانہ ملنے والے لوگ بھی ایک دوسرے سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں نظم "بانس کا بارڈر” دیکھیے:
عائشہ کے گھر والے اس کو
نہیں بھیجتے اس کو بِملا کے گھر
روتی ہے معصوم عائشہ
چیختی ہے بِملا اپنے گھر
رام نومی سے لگا محرم ایک ہی ساتھ چلا آیا ہے
بانس کا بارڈر ہے رستے کے دونوں جانب
ہندو اور مسلم کی بستی بانٹ رہا ہے
بند دکانیں، سونی بستی، ھو کا عالم
شام کا اپنی گود میں سررکھتے ہی
ڈھول ،نگاڑے ،تاشے یکدم بجنے لگتے ہیں
گونجتے ہیں کچھ ایسے فقرے ،ایسے نعرے
جو بس سال کے اس موسم میں لگتا ہے کہ
پھر زندہ ہیں
مٹھی بھر لوگوں نے شہر میں تہواروں کو
عجب سیاسی رنگ دیا ہے
ہفتے دس دن تک ہر اک دن ملنے والے
مل نہیں پاتے
طاہر اپنے گھر میں مقید
کرشنا اپنے گھر میں بندی
دلشاد نظمی اپنی نظموں میں واقعی سماج اور سماجی رویے کی مذمت کرتے ہیں، ان کی نظمیں صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں۔ ان کی عورتوں کے عالمی دن پر لکھی گئی نظم”عالمی یومِ خواتین”اس دن کے منانے کے انداز کی مذمت کرتی ہے۔ اس دن کس طرح عورتوں کو سجا کر نیم عریاں حالت میں دکھایا جاتا ہے۔ کیا ہر صوبے کی ثقافت کی جھلک نمایاں کرنے کے لیے عورتوں کو ہی پیش کیا جانا مناسب ہے۔ وہ عالمی یومِ خواتین کے موقع پر ہال میں لگی عورتوں کی تصویروں سے نمایاں ہوتے ہوئے عورتوں کے خدوخال ، ان کے نیم عریاں پستانوں، ابھرے کولہے ، وہ لکڑی کے چولہے پر ہوا پھونکتی ادھ ننگی سی عورت اور کہیں پر ناف کو فوکس کرتے ہوئے مناظر کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ عالم یوم نسواں پر ان سجی سجائی عورتوں کے پہلوؤں میں بیٹھے وزیروں، ملاؤں اور پنڈتوں کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ عالمی یوم نسواں کے موقع پر ہوس زدہ، عصمت کے مجرم اور آبروریزی کر کے آنے والوں کو بھی اسٹیج پر بٹھانے کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ ان بہت ساری ماڈلز کے بیچ حوا ڈھونڈتے ہیں۔
مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب کے موضوع کو دلشاد نظمی نے متعدد نظمیں لکھی ہیں۔ اس حوالے ان کے نظم” پسینجر ٹرین” اہم ہے۔ اس نظم میں انھوں نے ملا اور پنڈت کوایک ساتھ ٹرین میں سفر کرتے دکھایا ہے۔ غیر ارادی طور پربھی ایک دوسرے کی آنکھوں سے نفرت جھلک رہی ہے۔ دونوں میں بے حد بغض بھرا ہوا ہے۔ دلشاد نظمی نے اپنی نظموں میں جنس کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اس میں بھی انھوں اپنی معاشرت کی عکاسی کی ہے۔ ان کی نظم” چھکے” ملاحظہ کیجیے:
بس اسٹاپ پہ کچھ شہدے
معصوم سی سہمی اک لڑکی کو
چھیڑ رہے تھے
بھیڑ لگی تھی۔۔۔۔لیکن تنہا تھی وہ لڑکی
گندے ہاتھوں کے ہروار سے بدک رہی تھی
ڈری ہوئی ہرنی کے جیسی
گالوں پر آنسو کی دھارا
ڈر سے چہرہ پیلا پیلا
بھاگ رہی تھی،،لیکن دائرہ تنگ بہت تھا
لوگ سبھی چپ چاپ کھڑے تھے
سب کچھ ہوتا دیکھ رہے تھے
کوئی بھی آگے نہیں آیا
پھر یکلخت۔۔۔۔۔
بھیڑ چیرتے کچھ چہروں نے گھیرا توڑا
لہنگا،،،چولی،،سرخی پاؤڈر۔کاجل ،ٹیکہ ،نتھنی، چوڑی
سب کچھ تھا،،،،،پر ذات الگ تھی
ایک ایک کو پکڑ کر مار رہے تھے
بھاگ گئے نامرد وہ سارے ،کچھ لمحوں میں
پھر ان میں سے
ایک نے گھنٹوں سے کچھ اوپر لہنگا اٹھا کر
اس کا سرا کہنی سے دبایا
بھیڑ کو دیکھا
زور زور سے تالیاں پیٹی اور چلایا
ہم ہی نہیں
تم سب چھکے ہو!!!!!
آج مسلک کی بنا پر مساجد بن گئی ہیں۔ مسلمان مسلکی شان کے ساتھ جینے لگ گئے ہیں انھوں نے ٹوپیاں، پگڑیاں اور صافے سب مختلف انداز کے کر لیے ہیں تا کہ دوسروں سے منفرد لگیں۔ مسلمان سنی، وہابی اور اہلحدیث بن گئے اور قوم کا اتحادہ پارہ ہارہ ہو گیا ہے۔مسلمان ایک دوسرے کو کافر، گستاخ اور بے ادب کہنے میں لگے ہیں۔ دلشاد نظمی نے مسلمانوں کو شرک اور بدعتوں سے بچنے کا کہا ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظم”اب تمھاری ضرورت نہیں ہے ہمیں” اہمیت کی حامل ہے۔ اس نوع کی دوسری نظموں میں "ریلی” بھی قابل ذکر ہے۔ چند سال قبل قصور کی معصوم زینب کو کچھ درندوں نے نوچ ڈالا ۔ دلشاد نظمی نے ہندوستان میں رہتے ہوئے مملکت اسلامیہ پاکستان میں رونما ہونے والے ایسے دلخراش واقعے پر آواز اٹھائی ہے۔ شاعر نے سوال اٹھایا ہے کہ وہ ظالم لوگ کون تھے، کیا مسلمان تھے؟۔ اس ضمن میں دلشاد نظمی کی نظم”قصور کی معصوم زینب کےنام۔۔۔” ملاحظہ کیجیے:
بتاؤ نا مجھے زینب،
بتا سکتی ہو کیا مجھ کو
تمھاری عمر سے ایسی توقع تو نہیں رکھتا
کوئی پاگل ہی ہو گا جو غلط انداز سے سوچے
تمھیں دیکھا غلط نظروں سے آخر کن درندوں نے
بتاؤ ناکہ
وہ ماں باپ، بھائی بہنوں اور بچوں والے ہی سب تھے؟
مسلمان تھے؟
وہ شیعہ تھے کہ سنی، یا وہابی
کچھ تو بولو،
کون تھے آخر؟
وڈیرے تھے ؟جو رکھتے ہیں رعیت کی ہراک شے پر
ہمیشہ مالکانہ حق
مگر تم شے نہ تھی کوئی ،
بہت معصوم ،،،ننھی سی پری تھی تم
ابھی ننھے سے پودے کی تھی بس کونپل
ہری تھی تم
تمھیں پھر سرخ اور خوں رنگ موسم کی
ردا کس نے اڑھائی ہے؟
دہائی ہے، دہائی ہے، دہائی ہے
سمجھنے سے میں قاصر ہوں،
تمہارا ملک تو کلمے کی بنیادوں پہ قائم ہے،
وہاں تحریکیں چلتی ہیں تحفظ کی
وہاں شریعتِ اسلامیہ کے ہیں علمبردار
ہری، کالی، گلابی، ترچھی، اونچی ٹوپیوں والے
خصابی ، لمبی،چھوٹی ،ہر قسم کی داڑھیوں والے،
وہی حبے، عمامے، شیروانی، پگڑیوں والے،
بتا بھی دو،
کہ غیرت جاگنے کی رت نہیں آئی ابھی ان پر
جنازے پر ہزاروں احتجاجاً جٹ گئے۔لیکن
تمہارے قاتلوں کو ڈھونڈھنے کیا کوئی نکلے گا
بتاؤنا مجھے زینب،،،،،؟؟؟؟؟!!!!!
دلشاد نظمی اپنی نظموں میں نظام عدل کو بھی موضوع بناتے ہیں۔ ہمارا نظم عدل حق کو حق اور باطل کو باطل نہیں کہتا۔ وہ قانون کے عین مطابق نئے نظام عدل کی بات کرتے ہیں۔ وہ روایتی اور فرسودہ عدلیہ کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں جہاں قانون کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے۔ عدلیہ کے دروازے کی سیڑھیوں پر قانون کی دھجیاں بکھری پڑی ہیں۔ لوگوں کو ایک عرصہ گزرنے پر بھی انصاف نہیں ملتا۔ اس حوالے سے دلشاد نظمی کی نظم ” می لارڈ” اہمیت کی حامل ہے۔ اس نظم میں انھوں نے عدلیہ کے انصاف کی دیوی کی عمدہ انداز میں عکاسی کی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں عدلیہ آزاد نہیں اور قانون کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے۔ شاعر نے ہندوستان کی تقسیم کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ہجرت کے وقت مہاجروں کو پاکستان اور بھارت جاتے ہوئے سرحد کے دونوں طرف جو مسائل ومصائب جھیلنا پڑےان کی تصویر کشی کی ہے۔ ہجرت کے موضوع پر ان کی ایک نظم”ہجرت” زیادہ اہم ہے۔دلشاد نظمی عورتوں کو ہراساں کرنے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ وہ ہوس بھری نظروں سے عورت کو دیکھنے والوں کو کہتے ہیں کہ کیا تمہیں اپنے گھر کی عورتیں یاد نہیں آتیں۔ تمہارے اپنے گھر میں بھی تو ماں بہن بیوی بیٹی موجود ہے۔ اس لیے تمہیں ایسی حرکتیں کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ اس ضمن میں نظم "کوکی لڑکی” دیکھیے:
ننگی،بےبس، روتی بلکتی
آدی واسی لڑکی چھو کر تم نے کیا محسوس کیا تھا
مجھے بتاؤ،،،سچ سچ کہنا ،،،مت شرماؤ
ڈر اور شرم سے کانپ رہی تھی،،،،دوڑتے دوڑتے ہانپ رہی تھی
کوکی لڑکی
تم بے گھیرا ڈال دیا ننگے تن کے چاروں جانب
کہاں چھوا تھا ،،،بولوبولو مت شرماؤ
جہاں سے تم نے دودھ پیا تھا اپنی ماں کا
یاپھر اس سے تھوڑا نیچے
جس کے اندر خود تم بھی نو ماہ رہے ہو
اس سے اور ذرا سا نیچے
بیج جہاں روپا تھا تمہارے باپ نے اک دن
مل کے تمہاری ماں کے تن سے
لیکن مجھ کو یہ بھی بتاؤ،،،جہاں تہاں چھونے سے پہلے
اپنے گھر کی عورتیں یاد نہیں آئی تھیں
میرا جسم میری مرضی کے موضوع پر بھی دلشاد نظمی کی ایک نظم "ننگی عورت” اہمیت کی حامل ہے۔ وہ عورت کی اس طرح کی آزادی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے بیچ سڑک پر ننگا ہو کر چلنے کو آزادی نہیں کہتے۔ دلشاد نظمی کی متعدد نظمیں معاصر ماحول،معاشرت اور سیاسی وسماجی مسائل وحالات کی عکاسی وترجمانی کرتی ہیں۔ انھوں نے روزمرہ کے کئی واقعات اور زندگی کے مسائل کو نظموں میں بیا ن کیا ہے۔ان کی نظموں میں مذہبی انتہا پسندی، معاصر سیاسی اکھاڑ بچھاڑ ، ظلم وبربریرت اور ناآسودگی جیسے موضوعات بیان کیے گئے ہیں۔ انھوں نے عصر حاضر کی زندگی اور اس کے معیار ومسائل کاذکر نہایت عمدگی کے ساتھ کیا ہے۔ انھوں نے جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ بھوک پیاس اور موجودہ دور کے انسان کی ناہموار زندگی کی تصویر کشی کی ہے۔
دلشاد نظمی مزاج کے حوالے سے انقلابی ہیں ، ان کا مزاحمتی رد عمل اس بات کا ثبوت ہے۔ ان کی شاعری میں معاصر حالات ومسائل کا ذکر رفتہ رفتہ احتجاج کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ انھوں نے اپنی متعدد نظموں میں معصوم افراد اور معاشرے میں بڑھنے والے جرائم کو پیش کیا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں معاصر حالات ومسائل کے نوحہ گر ہیں۔ وہ عصری حالات کو مخصوص علامات کے ذریعے سے بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنے گردوپیش کی زندگی کو نظموں میں اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ عصررواں کےصحیح نبض شناس معلوم ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں عام شہری کا احتجاج پیش کیا ہے۔ دلشاد نظمی کی نظمیں دراصل انسان کے دکھ درد، جذبات واحساسات اور آشوبِ زندگی کا آئینہ ہیں۔

ساحل سلہری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button