- Advertisement -

 کمپی کاری کا قاتل

 کمپی کاری کا قاتل از کینتھ اینڈرسن

 کمپی کاری کا قاتل
اگر دو بلند پہاڑی سلسلوں کا تصور کریں جن کی اوسط بلندی 4٫000 فٹ سے زیادہ ہو اور ان کے درمیان پھیلی وادی پانچ میل چوڑی ہو جس میں گھنا جنگل ہو تو آپ کو پتہ چلے گا کہ میری کہانی کس علاقے سے متعلق ہے۔ یہ کہانی ضلع سالم کے شمالی علاقے سے متعلق ہے جو جنوبی ہندوستان میں مدراس کے صوبے میں واقع ہے۔ یہ پہاڑیاں شمال سے جنوب کو جاتی ہیں اور مشرقی سلسلہ زیادہ بلند ہے۔ اس کے جنوبی کنارے پر واقع پہاڑی گتھریاں ہے جو 4٫500 فٹ سے زیادہ بلند ہے۔ اس کی ڈھلانوں پر کوڈیکاری کا بنگلہ ہے جہاں سے دنیا کے خوبصورت ترین مناظر میں سے کچھ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر سمت پہاڑیاں اور چٹانیں دکھائی دیتی ہیں۔ سورج صبح کے وقت گلابی رنگ کی دھند سے طلوع ہوتا ہے اور پھر تانبے جیسی رنگت چھوڑتا مغربی جانب غروب ہوتا ہے۔ پھر چاند طلوع ہوتا ہے اور اپنی سفید روشنی پھیلاتا ہے۔ چاند پہلے پہاڑیوں کے اوپر سے نکلتا ہے اور اس کی چاندنی پہاڑوں سے اترتی ہوئی آخرکار وادی میں داخل ہوتی ہے۔ رات بھر چاند کا سفر جاری رہتا ہے اور جنگل میں ہونے والے کئی حادثات بھی دیکھتا ہے۔ دم توڑتے سانبھر کی آواز ہو یا چیتل کی چیخ، چاندنی میں ان کی چیخ بیکار جاتی ہے اور ان کی جان بھوکے شیر کے ہاتھوں چلی جاتی ہے۔
بیس سال سے زیادہ عرصہ ہوا، میری ملاقات افغانستان کے بادشاہ امان اللہ کے بھائی سے ہوئی جو جلاوطنی کا عرصہ کوڈی کاری کے بنگلے میں گزار رہے تھے کہ انہیں یہ جگہ بہت پسند تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں کے مناظر انہیں افغانستان کی یاد دلاتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کوڈی کاری کے آس پاس گھنا جنگل ہے جبکہ افغانستان کے پہاڑ بالکل خالی ہیں۔ تاہم دونوں آزادی کا احساس دلاتے ہیں۔ کمپی کاری چھوٹی سی وادی ہے جو مغربی ڈھلوان پر آباد ہے۔ اس کے آس پاس کچھ کھیت ہیں اور کھیتوں کے پار بانسوں کا گھنا جنگل ہے جس میں سے ندی گزرتی ہے۔ میں اس وادی کو سپائیڈر ویلی یعنی مکڑیوں کی وادی کہتا ہوں کیونکہ یہاں بہت بڑی مکڑیاں اپنے جالے بنا کر رہتی ہیں جو عموماً ندی کے کنارے راستے کے درمیان بنے ہوتے ہیں۔ یہ ندی جنوب کو جاتے ہوئے وسیع ہوتی جاتی ہے اور اسے موراپور وادی کہا جاتا ہے جہاں یہ ندی دریائے چنار سے جا ملتی ہے، اس مقام کو سوپاٹھی کہا جاتا ہے جو دریائے کاویری سے دس میل دور ہے۔
میں نے اس علاقے کا بیان اس لیے تفصیل سے کیا ہے تاکہ قارئین کو تھوڑا بہت اندازہ ہوسکے کہ یہ کہانی کے واقعات کہاں پیش آئے تھے اور یہ بھی کہ یہ علاقہ کتنا خوبصورت ہے۔ یہاں سڑتی ہوئی نباتات، جنگل میں چھایا اندھیرا، دور سے شکار کی تلاش میں نکلے آدم خور شیر کی دھاڑ اور غراہٹ اور کے بعد چھا جانے والی ڈراؤنی خاموشی، جھاڑ جھنکار میں ہونے والی مدھم سرسراہٹ جو آدم خور کی ہوگی جو تہذیب یافتہ انسا ن کے خلاف اپنے داؤ آزما رہا ہوگا۔ خیر کہانی شروع کرتے ہیں۔
کمپی کاری آدم خور کے ظہور کے بعد شدید دہشت کا شکار تھا اور تین مقامی باشندے اس کا لقمہ بن چکے تھے۔ پہلا شکار ایک پجاری تھا جو گیارہ میل دور متھر سے کمپی کاری کو ایک ماہ قبل آیا تھا۔ مگر وہ دوبارہ دکھائی نہ دیا۔ ان علاقوں میں ہاتھی بکثرت تھے اور بسا اوقات انسان کو مار ڈالتے تھے۔ سو جب پجاری کمپی کاری نہ پہنچا تو اس کی تلاش کے لیے بندے متھر روانہ ہوئے۔ شاید یہ لوگ پجاری کی بجائے اس کی قیمہ ہوئی لاش تلاش کرنے کا سوچ کر نکلے تھے جس کےآس پاس ہاتھی کے پیروں کے نشانات ہوں گے۔ مگر انہیں دونوں نہیں ملے۔ کمپی کاری سے پانچ میل دور انہیں نر شیر کے پگ دکھائی دیے جس کے ساتھ تھوڑا سا خون موجود تھا اور متوفی کی لاٹھی اور دھوتی بھی وہیں مل گئی۔
دس روز بعد ایک عورت مغرب کے قریب کنویں سے پانی بھرنے گئی مگر واپس نہ لوٹی۔ آٹھ بجے اس کے شوہر نے اپنے چند دوستوں کے ہمراہ لاٹھیوں سے مسلح ہو کر تلاش شروع کی تو آدھا بھرا ہوا پیتل کا گھڑا راستے پر پڑا مل گیا۔ تاہم عورت کا کوئی نشان نہ ملا۔
اگلی صبح لوگوں کی جماعت تلاش پر نکلی اور راستے میں انہیں عورت کی ساڑھی اور پھر آگے چل کر چاندی کی پازیب بھی مل گئی۔ آخرکار عورت کی باقیات بھی مل گئیں۔ اس کا سر جھاڑی کے نیچے پڑا تھا جبکہ پیر اور ہاتھ اِدھر اُدھر پڑے تھے اور جسم کا باقی حصہ اور کتری ہوئی ہڈیاں بتا رہی تھیں کہ شیر بہت بھوکا تھا اور اس نے خوب پیٹ بھر کر کھایا تھا۔
ایک مہینہ گزر گیا۔ کمپی کاری کے لوگ جیسے محاصرے میں آ گئے ہوں۔ نہ تو کوئی یہاں آیا اور نہ ہی یہاں سے باہر گیا۔ انسانی فضلے سے گھروں کے باہر اور اندر بدبو ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ کیا باہر قاتل اپنے شکار کی تلاش میں نہیں پھر رہا؟ کیا پہلا آدمی جو حوائجِ ضروریہ پوری کرنے کے لیے باہر نکلتا، اسے شیر نہ لے جاتا؟ رات کے وقت صورتحال بہت مشکل ہو جاتی کہ انسان اور ان کے مویشی اور بسا اوقات ان کے کتے بھی گھروں کے اندر پھنس پھنسا کر بیٹھ جاتے اور دروازے کے سامنے شہتیر یا نہر سے لا کر وزنی پتھر رکھ دیے جاتے۔ ہر گزرتے روز کے ساتھ ہی گھروں میں غلاظت بڑھتی جا رہی تھی اور لوگ ان حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
تاہم بہترین احتیاط بھی کبھی کام نہ آتی۔ میرے دوست بیرا پجاری کا داماد مارا ایسی صورتحال سے دلبرداشتہ ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ آدم خور ہو یا نہ ہو، وہ گھر کے اندر گندگی پھیلانے کو تیار نہیں۔ رات کے اندھیرے میں وہ باہر جاتا اور فارغ ہو کر آ جاتا۔ ایک رات وہ حسبِ معمول باہر نکلا مگر واپس نہ لوٹا۔ گھر کے اندر اس کی پریشان بیوی کہتی ہے کہ اس نے ہلکی سی دھپ کی آواز سنی تھی اور ساتھ ہی جیسے کسی کا گلہ گھونٹا جا رہا ہو، مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
پندرہ منٹ بعد اس نے شور مچا دیا۔ کوئی بھی مدد کو نہ آیا کہ سبھی خوفزدہ تھے۔ بند دروازوں کے پیچھے لوگ اس کی چیخم دھاڑ سنتے رہے۔ انہیں علم تھا کہ مارا اب انسانی مدد کی ضرورت سے دور چلا گیا ہے۔ وہ تو مر چکا ہے مگر وہ سب زندہ تھے۔ پھر باہر جا کر کیوں خود کو ہلاکت میں ڈالا جائے؟سو اس رات سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیدار اور اس بیچاری کی چیخیں سنتے رہے۔
اگلی صبح نیم دلی کے ساتھ مارا کی باقیات تلاش کرنے کی کوشش ہوئی اور اگر شیر نے گاؤں سے دو سو گز کے فاصلے پر پیٹ نہ بھرا ہوتا تو مارا کی باقیات کبھی نہ مل پاتیں۔ کنویں والی عورت کی نسبت مارا کی باقیات کچھ زیادہ تھین۔ شاید اس کا گوشت سخت ہو یا پھر شیر اتنا بھوکا نہ ہو؟کون جانتا ہے۔ اس کا سر اور دھڑ ابھی یکجا تھے۔
میرا دوست بیرا اس وقت کمپی کاری میں تھا، جب اس کے داماد کی ہلاکت ہوئی تو اس نے اٹھارہ میل کا مشکل سفر کر کے پناگرام کا رخ کیا۔ اس سفر میں کوئی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا، سو وہ اکیلا ہی آیا۔ اس نے نہ تو آدم خور کی کوئی آواز سنی اور نہ ہی اسے دیکھا۔ پناگرام میں وہ اپنے پرانے رفیق رنگا سے ملا اور یہ دونوں بس پر بیٹھ کر بنگلور آئے۔ نو بجے رات کو مجھے صدر دروازے کے باہر آوازیں سنائی دیں تو باہر جا کر دیکھا۔ اپنے پرانے دوستوں کو دیکھ کر مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ بہت خوشی ہوئی۔
ضلع سالم نے اُن دنوں جسمانی، روحانی اور اخلاقی بہتری کے لیے شراب پر پابندی لگا دی تھی۔ چونکہ میرے دوست جسمانی، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے ترقی نہیں چاہتے تھے، سو میں نے انہیں بہترین برانڈی پیش کی۔ تازہ دم ہو کر بیرا نے بتایا آدم خور کے بارے مختصراً بتایا۔ پھر اس نے صاف الفاظ میں مطالبہ کیا کہ اس کے داماد کا بدلہ مجھے لینا ہے۔
اس بچگانہ اعتماد کے سامنے میرا کوئی بہانہ نہیں چل سکتا تھا۔ تین روز بعد میں اپنی سٹڈ بیکر چھوڑ کر باقی کے پیدل سفر پر روانہ ہوا۔ راستے میں مقامی دکانوں سے ہم نے ضرورت کا سامان خریدا اور چند گھنٹے بعد ہم اٹھارہ میل کا سفر پورا کر کے کمپی کاری پہنچ گئے کہ اس وادی میں کار کا جانا ممکن نہیں تھا۔
منزل سے دو میل قبل ہمیں شیر کے تازہ پگ دکھائی دیے جو پگڈنڈی پر تھے۔ اس راستے پر کئی روز سے کوئی انسان نہیں گزرا تھا اور نشانات واضح تھے۔ میں نے پگوں کا بغور جائزہ لیا تو اتنا پتہ چلا کہ اوسط جسامت کے نر شیر کے پگ ہیں۔ یہ علم نہیں ہو سکا کہ آیا شیر جوان ہے یا بوڑھا یا ادھیڑ عمر اور نہ ہی ہمیں یہ علم تھا کہ آیا یہی آدم خور شیر ہے یا پھر ادھر سے گزرنے والا کوئی عام شیر۔
کمپی کاری کے لوگوں سے ہمیں زیادہ معلومات نہیں ملیں۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ شیر بہت بڑی جسامت کا ہے مگر ظاہر ہے کہ عام لوگ جب دہشت کے عالم میں رہ رہے ہوں تو آدم خور کی جسامت اصل سے کئی گنا زیادہ بڑی دکھائی دیتی ہے۔
مسئلہ یہ تھا: اب کیا کریں یا کیسے آگے بڑھیں؟ جواب یہ تھا: اگلی واردات کا انتظار کریں یا پھر زندہ گارا پیش کیا جائے۔ چونکہ اس شیر نے ابھی تک اس دیہات کا کوئی بھی مویشی ہلاک نہیں کیا تھا۔ اس کا شکار ہمیشہ انسان ہی بنے تھے۔ اب سوال یہ تھا: کوئی جانور باندھا جائے یا پھر کوئی انسان گارا بنے؟ اس کا واحد جواب یہ تھا کہ اگر گارا انسان نے بننا ہے تو یہ صرف میں ہی ہوں گا اور ظاہر ہے کہ مجھے یہ جواب انتہائی ناپسند تھا۔
بیرا، رنگا اور میں سر جوڑے چائے کی پیالیاں پیتے اور گفتگو کرتے رہے اور آخرکار ایک منصوبہ تشکیل پانے لگا۔ میں نے سوچا کہ پہلے حیوانی گارا پیش کیا جائے مگر ان دونوں کا خیال تھا کہ انسانی گارا بہتر رہے گا اور میں خود گارا بنوں تو مسئلہ جلد ہی حل ہو جائے گا۔ میری دلی خواہش تھی کہ ان کا منصوبہ اس سے مختلف ہوتا۔
تین افراد کی گفتگو میں دو کی رائے اکثریت ہوتی ہے۔ تیسرے انسان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ تاہم میں نے یہ بات منوا لی کہ انسانی گارے کے ساتھ ساتھ ہمیں حیوانی گارا بھی باندھنا چاہیے تاکہ شیر کو زیادہ سے زیادہ لبھایا جا سکے۔
کمپی کاری میں بھینسے نہیں تھے، سو میں نے دو بیل خریدے جن میں سے ایک کو اس جگہ باندھا جہاں آتے ہوئے شیر کے پگ دکھائی دیے تھے اور دوسرے کو وادی کے نچلے سرے پر بل کھاتی ہوئی ندی کے خشک پیندے میں باندھا۔ میں کنویں کی منڈیر سے ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھا۔ میں نے کنویں کی رسی سے ایک دھاتی برتن باندھ دیا تھا جو میرے پاس ہی رکھا تھا۔ بوتل کی نسبت تازہ پانی ہمیشہ بہتر رہتا ہے۔
کنویں سے پچاس گز کی دوری پر تین سمت جنگل تھا۔ اس جگہ کسی نے پپیتے کے دس بارہ درخت لگا دیے تھے۔ کنویں سے بہنے والے پانی سے ان درختوں کے نیچے گھاس اور کچھ جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔ دن کی روشنی میں تو یہ بہت معمولی دکھائی دیتی تھیں مگر دھندلکے اور اندھیرے میں مجھے اندازہ ہونے لگا کہ شیر کی آمد کا یہ بہترین راستہ ہو سکتا ہے۔ یہاں شیر جست لگانے کے لیے مناسب فاصلے تک پہنچ جاتا اور مجھے اس کا علم بھی نہ ہو پاتا۔
یہ سوچ آتے ہی میں نے اپنا مقام بدل کر کنویں کے دوسرے ستون سے ٹیک لگا لی اور اب پپیتے کے درخت میرے سامنے تھے۔
میں نے اس جگہ بیٹھنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ چاند کی تیرہویں تاریخ تھی۔ غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی چاند نکل آتا مگر میں یہ بھول گیا تھا کہ مشرق میں پہاڑیوں سے چاند کو بلند ہونے میں کچھ وقت لگتا اور پھر اس کی چاندنی اس جگہ پڑنے لگتی۔ چاندنی یہاں اندازاً آٹھ بجے پہنچتی اور یہاں اپنی زندگی کے بدترین ڈیڑھ گھنٹے انتظار کی تکلیف سہنی پڑی۔ میں بتا نہیں سکتا کہ چاندنی کی اولین کرنیں جب یہاں پہنچیں تو میں کتنا خوش ہوا۔
اس سے مجھے گملا پور میں گزاری ہوئی راتیں یاد آ گئیں جہاں میں جھونپڑے میں چھپ کر تیندوے کا انتظار کرتا رہا تھا اور دن کو ٹیک کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھتا تھا اور سوچتا تھا کہ کیا میں یہ حماقت پھر سے کبھی دہراؤں گا؟ عقلِ سلیم بتاتی تھی کہ یہی واحد حل تھا۔
رات پر گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی اور عام شبینہ پرندے بھی میرے قریب نہیں آئے۔ گرم دن گزارنے کے بعد چند چمگادڑیں اڑتے ہوئے پانی پینے آئیں۔ میں پپیتے والی سمت کے علاوہ بھی ہر سمت نگرانی کرتا رہا۔ چشمِ تصور سے مجھے ہر جانب سے آدم خور شیر آتے محسوس ہوتے رہے جو میری حدِ نگاہ سے ذرا پیچھے رہے ہوں گے۔ میں کنویں کی منڈیر پر چپکا بیٹھا رہا اور اعشاریہ 405 بور کی رائفل میرے ہاتھوں میں اور انگوٹھا ٹارچ کے بٹن پر تھا۔
ایسے وقت انسانی دماغ میں آنے والے خیالات عجیب اور ناقابلِ توجیہ ہوتے ہیں مگر میں انہیں سنا کر آپ کو کیوں پریشان کروں۔ پہلے پہل شیر کے بارے خیالات یہ تھے کہ یہ قسمت کا بدلا ہوگا۔ پھر کچھ دیر بعد شیر کا خیال زہن سے نکل گیا۔
آٹھ بجے کے بعد مشرقی پہاڑ کے اوپر آسمان روشن ہونے لگا اور ہلکی روشنی تیز ہونے لگی اور ستارے مدھم پڑنے لگے۔ پھر چاند نمودار ہوا اور میرے آس پاس کی جگہیں روشن ہو گئیں اور میری پریشانی ختم ہوئی۔جب چاند آسمان پر بلند تر ہوا تو روشنی بڑھنے لگی اور مجھے پپیتے کے تنوں کے درمیان کا منظر بھی دکھائی دینے لگا۔ رات کے پہلے نصف حصے میں کوئی آواز بھی سنائی نہ دی۔
گیارہ بجے کے بعد نر سانبھر نے ندی کی جانب سے آواز دی۔ میرا ایک گارا وہیں بندھا ہوا تھا۔ اس آواز میں خطرے اور تنبیہ کا عنصر واضح تھا۔ یہ آواز بار بار آئی اور پھر دور ہوتے ہوتے غائب ہو گئی۔شاید سانبھر مخالف سمت کی پہاڑیوں پر چڑھ کر خطرے سے دور نکل گیا ہوگا۔
ایک بار پھر خاموشی چھا گئی اور رات آہستہ آہستہ گزرتی رہی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں کنویں سے پانی نکالنے کی کوششش کروں تو چرخی کی آواز ایک میل دور موجود شیر بہ آسانی سن لے گا۔ دن کے وقت میں نے دیکھ لیا تھا کہ کنویں کی چرخی بہت زیادہ شور کرتی تھی۔ اگر شیر یہ آواز سنتا تو یہی سوچتا کہ اس کا مطلوبہ شکار پانی بھر رہا ہوگا۔
سو میں نے کنویں کی دوسری جانب جا کر ڈول اٹھایا۔ پھر میں نے اپنی رائفل کنویں کے ساتھ کھڑی کی اور پھر ڈول نیچے پھینکا اور پھر اسے آہستگی سے کھینچنا شروع کر دیا۔ پھر میں نے یہی عمل بار بار دہرایا۔ رات کی خاموشی میں چرخی کا شور دور دور تک سنائی دے رہا تھا اور میں نے لگ بھگ ایک گھنٹہ یہ مشق جاری رکھی۔ ہر چند منٹ بعد رک کر میں آس پاس کا بغور جائزہ لیتا۔ میری خصوصی توجہ درختوں کے نیچے بننے والے سایوں پر ہوتی تھی۔ تاہم کوئی حرکت نہ دکھائی دی نہ ہی جھاڑیوں سے کسی چوہے کی حرکت کی آواز آئی۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ جھونپڑوں کے اندر موجود لوگوں کے علاوہ اس علاقے میں واحد ذی روح ہوں۔
تین بجے کے بعد چاند مغربی پہاڑیوں کے پیچھے جانے لگا اور شام والی صورتحال پھر سامنے آئی۔ بتدریج تاریکی چھاتی رہی اور جلد ہی چند گز دور کی چیزیں اوجھل ہو گئیں۔ چاند غائب ہونے کے بعد ستاروں کی روشنی پھر سے تیز ہونے لگی۔
تاریکی کے محض نوے منٹ تھے مگر مجھے بہت زیادہ نیند آنا شروع ہو گئی۔ مگر اب مجھے پہلے سے زیادہ محتاط ہونا تھا کہ میں ایک گھنٹے سے آدم خور کو بلا رہا تھا۔ عین ممکن تھا کہ ساری رات وہ کہیں اور رہا ہو اور اب یہاں پہنچا ہو؟ ویسے بھی اچانک حملے کے لیے تمام تر حالات اس کی حمایت میں تھے کیونکہ پپیتے کے درخت پھر تاریکی میں ڈوب چکے تھے۔
اگر آدم خور حملے کا فیصلہ کرتا تو میں پوری طرح اس کے رحم و کرم پر ہوتا۔ تاہم اگر وہ دھاڑ کر حملہ بھی کرتا تو بھی میں انتہائی قریب سے اپنی رائفل چلا سکتا تھا۔ اگر وہ خاموشی سے حملہ کرتا تو مجھے اتنی مہلت بھی نہ ملتی۔
عین اسی وقت کنویں کے آس پاس موجود تمام چوہوں اور خرگوشوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ ان کی بھاگ دوڑ، خشک پتوں پر ان کی حرکات جو کبھی تو بلند ہوتیں اور کبھی محض ہلکی سی، جس سے شبہ ہوتا کہ آدم خور حملے کے لیے نہ تیار ہو رہا ہو۔
بحیثیتِ مجموعی بہت مشکل وقت گزرا۔ صبحِ کاذب آئی اور چلی گئی اور پھر پونے چھ بجے مشرقی جانب آسمان کا رنگ ہلکا پڑنا شروع ہو گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ سورج طلوع ہونے والا ہے اور رت جگا اپنے اختتام کو پہنچا۔ تاہم سات بجے کے بعد جا کر سورج پہاڑوں کے اوپر نکلا۔ پھر میں اپنی نشست سے اٹھا اور گاؤں کے جنوبی سرے پر لگے اپنے خیمے کو چل دیا۔
گرما گرم چائے پی کر میں سو گیا۔ ساڑھے دس اٹھ کر میں نے رنگا اور بیرا کے ساتھ نہر میں بندھے پہلے گارے کا چکر لگایا۔ گارا زندہ سلامت تھا۔ پاس جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیر اس کے پندرہ فٹ قریب تک آیا اور پھر اس کو دیکھ کر چلا گیا۔
رات کو سانبھر شیر کو ہی دیکھ کر خطرے کا اعلان کر رہا تھا۔ شیر کے پگ نرم اور خشک ریت پر واضح تھے مگر یہ کہنا مشکل تھا کہ آیا یہ وہی شیر ہے جس کے پگ ہم نے آتے ہوئے مغربی سمت دیکھے تھے۔ اُس جگہ زمین نرم نہیں تھی، سو شیر کے پگ اپنی اصل جسامت کے دکھائی دیے تھے۔ تاہم مجھے پورا یقین تھا کہ یہ شیر آدم خور ہے، کیونکہ عام شیر اس طرح گارے کو دیکھ کر واپس نہ مڑتا۔
پھر ہم دوسرے گارے کو روانہ ہوئے۔ وہاں جا کر دیکھا تو حیرت ہوئی کہ اسے شیر نے ہلاک کر دیا تھا۔ یہاں شیر کے پگ پچھلے روز والے پگوں جیسے تھے جو اس کے قریب دیکھے تھے۔
اب سوال یہ تھا: اس علاقے میں کیا دو شیر ہیں؟ یا پھر دوسرے شیر کو آدم خور نے ہی ہلاک کیا ہے؟ اگر ایک ہی شیر ہے جو کہ آدم خور ہے تو اس نے پہلے گارے کو کیوں چھوڑ دیا اور دوسرے کو کیوں مارا؟
میرا یہ خیال تھا کہ اس جگہ دو شیر ہیں اور پہلے گارے کو آدم خور نے دیکھ کر نظرانداز کر دیا تھا۔ رنگا کا بھی یہی خیال تھا۔ تاہم بیرا اس سے متفق نہیں ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ اس علاقے میں ایک ہی شیر ہے جو آدم خور ہے۔ پہلے بیل کو اس نے اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ وہ بیل سفید رنگ کا تھا۔ دوسرا بیل گہرا بھورا تھا، سو اسے کوئی شک نہیں ہوا۔
گارے کے رنگ کے بارے مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے تجربے کے مطابق شیر کے لیے گارے کا رنگ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور اگر دیگر شرائط پوری ہوں تو وہ ہر رنگ کے گارے کو مارنے پر تیار ہو جائے گا۔ ایک تو یہ کہ شیر کو بھوک لگی ہو، ورنہ شیر بے فائدہ شکار نہیں کرتا۔ دوسرا اسے کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔ آج کل چونکہ شیروں کا شکار زوروں پر ہے، شیر بھی محتاط ہوتے جا رہے ہیں۔ فطرت تیزی سے ناپید ہوتی انواع کو بچنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اگر گارے کی گردن سے رسی بندھی ہو تو شیر شاید ہی اسے ہاتھ لگائے۔ اگرچہ وہ سوچ تو نہیں سکتا، مگر اس کی فطرت اسے بتاتی ہے کہ انسان کے لیے فطری بات نہیں کہ وہ اپنے مویشی جنگل میں رات کو باندھ جائیں۔ سینگوں سے بندھی رسی والے جانور کے شکار ہونےکے زیادہ امکانات ہیں کہ شیر سمجھے گا کہ اس جانور کے سینگ جھاڑیوں میں پھنس گئے ہوں گے۔ اسی طرح پچھلی ٹانگ سے بندھی رسی والا گارا بھی آسانی سے مارا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ شیر اور تیندوے، دونوں اپنے شکار کا گلا دبوچتے ہیں اور اس سلسلے میں کوئی بھی رکاوٹ انہیں شبہے میں ڈال دیتی ہے۔
عموماً اس بارے تیندوے شیر جتنے محتاط نہیں رہتے۔ ذاتی طور پر میں تیندوے کے لیے کتے کو بطور گارا استعمال کرنے کو ظلم سمجھتا ہوں کہ کتا بہت سمجھدار جانور ہوتا ہے اور اسے بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ کیوں باندھا گیا ہے۔ حملہ ہونے تک اسے شدید ذہنی عذاب سہنا پڑتا ہے۔ جوانی میں میں پوری کوشش کرتا تھا کہ گارے کے طور پر باندھے گئے کتے کی جان بچانے کی ہرممکن کوشش کروں۔ اس لیے میں نے چار انچ چوڑا چمڑے کا پٹہ بنوایا تھا جس میں چمڑے کی دو تہیں ہوتی تھیں اور بیرونی تہہ سے نکلے ہوئے دو دو انچ لمبے تیز کیل ہوتے تھے۔ جب تیندوا حملہ کرتا اور کیل اس کے منہ میں چبھتے تو تیندوا اچھل کر پیچھے ہٹتا تو مجھے بڑی ہنسی آتی۔ جتنی دیر وہ اس معمے کو حل کرتا، میں شکار کر لیتا۔ ایسے شعبدے شیر کے سامنے کام نہیں کرتے۔
بیمار جانور کا گارا بھی ناکام رہتا ہے۔ نیلگری پہاڑوں میں رہنے والے بڈاگا قبیلے کے لوگ گارے کے لیے صحت مند جانور نہیں بیچتے، چاہے ان کو کتنی قیمت دی جائے۔ ان کے خیال میں اچھے بیل کی قربانی گناہ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ایسا بیمار جانور بیچتے ہیں جس کی موت قریب ہو۔ مجھے یاد ہے کہ منہ کھر کی بیماری میں قریب المرگ ایک بیل میں نے گارے کے لیے باندھا۔ مسلسل تین راتوں تک شیر اس کے گرد چکر لگایا کرتا اور ایک بار تو وہاں بیٹھ بھی گیا تھا مگر پھر اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ چوتھی رات میرا بیٹا مچان پر بیٹھا اور آٹھ بجے بیل کا وقت پورا ہو گیا۔ بیل نیچے گرا اور ساری رات ایڑیاں رگڑنے کے بعد صبح مر گیا۔ اس رات شیر غائب رہا۔
گارے کی رنگت کے بارے شکاریوں کی رائے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ لوگ سفید جانور باندھنے سے کتراتے ہیں کہ ان کے مارے جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ماضی قریب کے تیندوؤں کا مشہور شکاری کالی بکری باندھنے کے خلاف تھا کہ اس طرح تیندوا ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جاتا ہے۔ اس شکاری نے سو سے زیادہ تیندوے مارے تھے۔
میں اصل موضوع سے ہٹ کر اس لیے تفصیل بتا رہا تھا کہ بہت سارے لوگ تیندوے اور شیر کے شکار کا طریقہ جاننے کے مشتاق ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ہم دوسرے شکاریوں کی ‘خوش قسمتی‘ کے ڈھیروں قصے سنتے ہیں، مگر یاد رہے کہ یہ خوش قسمتی دراصل ماضی کے ان گنت تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے جو کسی شکار کو کامیاب یا ناکام بناتی ہے۔
خیر، اصل کہانی کو لوٹتے ہیں۔ اب اس ادھ کھائے بیل پر مچان باندھنا رہ گیا تھا۔ تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے دونوں گارے مناسب درختوں کے نیچے باندھے تھے۔ جتنی دیر میں جا کر نیند پوری کرتا، رنگا اور بیرا نے میری کینوس کی کرسی کو مچان کے طور پر باندھ دیا۔ دونوں ہی اس کام کے ماہر تھے۔ میرے خیال میں چارپائی کے بعد دوسری بہترین مچان تہہ ہونے والی کرسی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ چارپائی کی مانند بڑی اور آرام دہ تو نہیں ہوتی مگر اس کو تہہ کرنا اور منتقل کرنا سہل ہوتے ہیں۔
پانچ بجے میں رت جگے کے لیے تیار ہو کر مچان پر پہنچ گیا۔
یہ مقام کمپی کاری سے بلند اور مغربی پہاڑیوں پر تھا، سو گاؤں میں گزشتہ روز کی نشست کی نسبت چاندنی یہاں جلدی پہنچ جاتی تھی۔ جب مغربی پہاڑیوں پر سورج غروب ہوا تو چاند مشرقی سرے سے نکل آیا تھا اور آس پاس صاف دکھائی دینے لگا۔
آٹھ بجے اچانک مجھے احساس ہوا کہ شیر میرے عین نیچے کھڑا ہے۔ وہ یہاں کس سمت سے اور کیسے آیا، مجھے علم نہیں۔ چونکہ یہ راستہ دونوں طرف مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا، سو شیر کی آمد کسی اور راستے سے ہوئی ہوگی۔ مجھے شیر کی موجودگی کی اطلاع تب ہوئی جب شیر نے درخت کے تنے سے اپنے جسم کو رگڑنا شروع کیا۔ اس دوران اس نے سر اٹھایا اور مجھے دیکھ لیا۔
پھر اس نے فوری ردعمل دکھایا۔ دھاڑ لگا کر اس نے درخت پر چڑھنا شروع کیا۔ خوش قسمتی سے ہم نے نسبتاً سیدھے تنے والا درخت چنا تھا اور پہلی شاخ پندرہ فٹ پر تھی جہاں میں کرسی پر بیٹھا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہی آدم خور ہے، ورنہ عام شیر تو انسان کی موجودگی سے ہی فرار ہو جاتے ہیں۔
میں نے فوراً اپنی ٹانگیں اوپر کو اٹھائیں اور بائیں جانب جھک کر نیچے دیکھا۔ بدقسمتی سے میں غلط جانب مڑا تھا کیونکہ شیر دائیں سمت سے چڑھ رہا تھا۔ میں نے فوراً سمت بدلی مگر اب مجھے بائیں شانے سے گولی چلانی تھی۔
آپ کو یہ قطعہ پڑھے میں جتنا وقت لگا، اصل واقعات اس سے کم وقت میں رونما ہوئے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میری نشست زمین سے پندرہ فٹ بلند تھی۔ ناک سے دم کے سرے تک شیر کی لمبائی نو فٹ اوسط شمار ہوتی ہے۔ اگر دم کو نکال کر آگے کو بڑھے ہوئے پنجے شمار کر لیں تو پچھلے پیروں پر کھڑے شیر کی اونچائی آٹھ فٹ بنتی ہے۔ اب آپ پندرہ فٹ سے آٹھ فٹ منفی کریں تو باقی سات فٹ بچتے ہیں جو اس رات شیر چڑھنے میں کامیاب رہا۔ مجھ پر حملہ کرنے کے لیے اس نے پنجے کو پھیلا کر کرسی پر حملہ کیا اور اس کے ناخن کرسی کو پھاڑتے ہوئے میری پتلون کو چیر گئے۔ اس دوران شیر کا توازن بگڑا اور وہ زمین پر گرا۔ شیر سے بچنے کے لیے میں کرسی سے اوپر اٹھا اور شکر ہے کہ میں رائفل سمیت شیر کے پیچھے نیچے نہیں گرا۔
آدم خور شیر ہو یا تیندوا، دونوں انسانوں پر پیچھے سے حملہ کرتے ہیں کہ عموماً وہ بزدل ہوتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے جب حملہ سامنے سے ہو یا جب شکار ان کی موجودگی سے خبردار ہو جائے تو بھی وہ حملہ کریں۔
اس رات بھی یہی ہوا۔ جب شیر زمین پر گرا تو اسے پتہ تھا کہ اس کی موجودگی راز نہیں رہی۔ زمین پر پہنچتے ہی اس نے زقند لگائی اور دھاڑ کے ساتھ جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ شیر فرار ہو گیا۔ ورنہ اپنے عین نیچے گولی چلاتے ہوئے عین ممکن تھا کہ رائفل میرے ہاتھ سے گر جاتی یا میں خود کرسی سے گر جاتا۔ شکر ہے کہ شیر نے فرار کو ترجیح دی۔
میری موجودگی بھی اب خفیہ نہ رہی تھی اور اب حرکت یا آواز کرنے میں کوئی مسئلہ نہ تھا۔ سو اپنا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ شیر کا پنجہ جہاں لگا تھا، کرسی پر پانچ انچ لمبی تین خراشیں تھیں۔ ان میں سے دو میری پتلون سے بھی پار ہوئی تھیں اور میرے کولہوں پر خراشیں پڑیں جو اب تکلیف دے رہی تھیں۔
عام طور پر لوگ اس بات پر ہنس پڑیں مگر یاد رہے کہ تمام گوشت خور درندوں کے پنجوں کے نیچے زہریلے جراثیم پل رہے ہوتے ہیں اور آدم خوروں پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ کرسی کی نشست اور میری پتلون، دونوں اتنی موٹی نہیں تھیں کہ جراثیم کو روک سکتیں۔ اب میرے زخم بگڑنے کا امکان تھا۔
میں اپنے ساتھ ابتدائی طبی امداد کا کافی سامان لایا تھا جس میں پانچ سی سی کی سرنج اور پروکین پینسلین بھی شامل تھی۔ تاہم یہ سب سامان کمپی کاری میں میرے خیمے میں یہاں سے دو میل دور رکھا تھا۔ اب دو راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ ابھی واپس روانہ ہو جاتا اور جا کر دوائی استعمال کرتا یا پھر صبح تک انتظار کرتا جو کم از کم دس گھنٹے دور تھی اور تب تک جراثیم زخموں میں پھیل جاتے۔ تاہم اگر ابھی واپس جاتا تو آدم خور کے حملے کا اندیشہ تھا۔ تاہم دوسری جانب اگر زخم بگڑ جاتے تو میں آدم خور کا مقابلہ کرنے سے معذور ہو جاتا۔
میں نے آدم خور کے اندیشے کو ترجیح دی اور رائفل کو نیچے اتار کر میں بھی اترا اور خلوصِ دل سے دعا کرتا رہا تھا کہ میرے اترنے کے دوران آدم خور حملہ نہ کرے۔ زمین پر پہنچ کر میں نے درخت کے تنے سے ٹیک لگائی اور رائفل کو رسی سے الگ کیا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ عین ممکن تھا کہ شیر دس میل دور ہوتا یا پھر نزدیکی جھاڑی کے پیچھے چھپا ہوتا۔ چاندنی خوب چھٹکی ہوئی تھی اور جنگل سے پھولوں کی خوشبو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آ رہی تھی۔
چند لمحے رکنے کے بعد میں نے کمپی کاری کے دو میل سفر کا آغاز کیا۔ زمین کی نوعیت اور نباتات کے مطابق اس راستے کی چوڑائی بدلتی رہتی ہے اور بعض جگہ پندرہ فٹ تو بعض جگہ محض ایک گز چوڑا رہ جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر اس کے اطراف میں اونچی گھاس اور خاردار بیلیں آ جاتی ہیں۔ راستے میں بانس کے جھنڈوں والی کئی ندیاں آتی ہیں اور ہوا میں جھولتے ہوئے ان کے تنے زمین پر عجیب عجیب سائے بناتے ہیں۔
ایسے مواقع پر دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور انسانی اعصاب ہر آواز کو آدم خور کے حملے سے جوڑ دیتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ رفتار تیز رکھی جائے۔ دماغ کہتا ہے کہ ایک طرف دیکھو اور پھر فوراً خیال آتا ہے کہ کہیں آدم خور دوسری جانب سے حملہ نہ کر دے۔
تاہم ان تمام جذبات پر قابو رکھنا چاہیے ورنہ انسان ہیجان کا شکار ہو جائے گا اور ہیجان میں انسان خبردار نہیں رہ سکتا اور نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔
اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ انسان اپنے سامنے جھاڑیوں میں چھپے شیر کی موجودگی سے خبردار ہو کیونکہ چلتے ہوئے انسان پر عقب سے اگر حملہ ہو تو شیر کچھ نہ کچھ آواز پیدا کرے گا۔
اس لیے عقلمندی کا تقاضا ہے کہ پوری توجہ سامنے رکھی جائے مگر کسی جھاڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے کنکھیوں سے دیکھ لینا چاہیے مگر ہر کو حرکت نہ دی جائے۔ اپنی رائفل کو مستقل فائر کے لیے تیار اور بغل میں رکھنا چاہیے کہ گولی کولہے یا پیٹ پر رائفل رکھ کر بھی چلانی پڑ سکتی ہے۔ رائفل کو شانے پر لانے اور نشانہ لینے کا وقت نہیں ملتا کیونکہ قاتل چاہے انسان ہو یا حیوان، کبھی اپنی موجودگی کا اعلان نہیں کرتا۔ اگر وہ ایسا کرنے لگیں تو قاتل کی بجائے مقتول بنتے وقت نہیں لگے گا۔
اگر آپ کا مطلوبہ جانور زخمی ہو تو شاید وہ غرا کر یا دھاڑ کر خبردار کرے اور پھر فلک شگاف دھاڑ کے ساتھ حملہ کرے گا۔ تاہم اگر شیر زخمی نہ ہو اور آدم خور بھی ہو تو پلک جھپکتے سر پر ہوگا۔
کمپی کاری سے چوتھائی میل پہلے راستے کے دونوں جانب چٹانی چھجے سے بنے ہوئے ہیں۔ پورے راستے میں یہی سب سے خطرناک مقام ہے کہ یہاں آدم خور کسی بھی پتھر کے پیچھے چھپ سکتا ہے۔ تاہم چونکہ اس نے فرار ہوتے ہوئے مخالف سمت کا رخ کیا تھا، سو میں نے سوچا کہ اسے اتنا وقت نہیں ملا ہوگا کہ وہ مڑ کر یہاں پہنچ سکتا۔ اس تسلی کی وجہ سے میں بعافیت یہاں سے گزر کر کمپی کاری اور پھر اپنے خیمے کو پہنچا۔
میری عدم موجودگی میں ہمیشہ کی طرح رنگا اور بیرا جاگ رہے تھے کہ مجھے کسی وقت بھی ان کی مدد کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ انہیں آگ جلا کر پانی گرم کرنے کا کہہ کر میں نے قہوہ پیا جو تیار تھا اور پھر اپنی سرنج نکال کر میں نے گرم پانی میں جراثیم سے پاک کی۔ پھر پروکین پینسلین کے 8 لاکھ یونٹ والے دو وائل مکس کیے اور خود کو ٹیکہ لگایا۔
پھر میں نے رنگا اور بیرا سے کہا کہ وہ پوٹشیم پرمیگانیٹ کے طاقتور محلول سے میرے زخموں کو دھوئیں اور پھر مرہم لگایا۔ زخم ایسی جگہ تھا کہ پٹی یا پلستر نہیں لگ سکتا تھا، سو میں سونے چلا گیا۔
کئی رت جگوں اور بے آرامی کے بعد میں آرام سے جو سویا تو صبح نو بجے کے قریب آنکھ کھلی۔ جنگل میں کوئی اتنا تاخیر سے نہیں اٹھتا کہ ہر کوئی سورج طلوع ہونے سے قبل ہی بیدار ہو کر کام پر لگ جاتا ہے۔ میں نے زخموں میں زیادہ تکلیف نہیں محسوس کی۔
مزید چار لاکھ یونٹ کا ٹیکہ لگا کر زخموں پر مرہم لگایا اور پھر دلیے، بیکن اور انڈوں کا بھرپور ناشتہ کیا اور پھر پکا ہوا پپیتہ کھایا جو کنویں کے پاس والے درختوں سے آیا تھا۔
پھر میں نہر والے گارے کی سمت چل پڑا جو آج بھی سلامت تھا۔ پھر دو میل دور میں گزشتہ رات والے مقام پر گیا جہاں دیکھا کہ شیر نے بیل کی لاش کو چھوا تک نہیں تھا۔ اس کے پگوں سے پتہ چلا کہ یہ وہی پہلے روز والا شیر تھا۔
نیلگری اور چتوڑ کے برعکس سالم کے جنگلات زیادہ تر خاردار ہیں اور امبل اور مڑے کانٹے بکثرت ہیں۔ وادیوں اور ندیوں کے کنارے البتہ بانس اگے ہوتے ہیں جو گنجان ہوتے ہیں۔ تاہم ان کا بھی نقصان ہی ہے کہ یہاں گھومنا پھرنا یا چھپ کر پیش قدمی انتہائی دشوار ہو جاتی ہے۔
درندے انتہائی خاموشی سے حرکت کرتے ہیں کیونکہ ان کی بقا کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ دیکھ بھال کر قدم رکھیں تاکہ آواز نہ ہو۔ پھر ان کا پچھلا پنجہ عین اگلے پنجے والی خالی جگہ پر پڑتا ہے۔ انسان کو بھی انتہائی احتیاط سے چلنا ہوتا ہے۔ اسے ہر قدم کے لیے جگہ کو دیکھنا ہوتا ہے کیونکہ خشک پتے اور چھوٹی سی ٹہنی پر بھی پاؤں پڑا تو آواز پیدا ہوگی۔ پھر کانٹے دار جھاڑیوں سے بچنا لازمی ہے ورنہ کپڑوں یا جلد میں گھسنے والا ایک کانٹا بھی پیش قدمی کو روک سکتا ہے۔ اس طرح آپ کی توجہ بٹ جائے گی اور آدم خور شیر کانٹوں سے نہیں الجھتا، سو نقصان آپ کا ہی ہوگا۔
اس جگہ جنگل انتہائی خاردار تھا، سو ہم کمپی کاری لوٹے اور گاؤں کے بزرگوں کے ساتھ سوچ بچار شروع کی۔ اب تک یہ حقائق سامنے آئے تھے:
آدم خور شیر نر اور اوسط جسامت کا تھا
مٹرگشت کے لیے اس کا پسندیدہ علاقہ مغربی پہاڑی سلسلے والا راستہ تھا
اسے بیل کے گوشت سے خاص دلچسپی نہیں تھی
یہ بات بھی یقینی نہیں تھی کہ یہاں صرف ایک شیر ہے یا دو شیر۔
ان لوگوں سے بات کر کے ہم اسی نتیجے پر پہنچے جو ہمارا پہلے روز تھا۔ یعنی یا تو اگلے انسانی شکار کا انتظار کریں یا پھر اسے زندہ انسان کا گارا پیش کریں جو اس جگہ ہو جہاں کمپی کاری آنے والا راستہ مغربی پہاڑوں سے نیچے اترتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگل میں دو اور بیل بھی باندھ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا کہ اس سے پتہ چلتا کہ یہاں کوئی دوسرا شیر تو موجود نہیں۔
شیر کے پنجوں سے لگی خراشیں ایسی جگہ تھیں کہ پندرہ منٹ سے زیادہ ایک حالت میں بیٹھنا ممکن نہ تھا۔ اس طرح شیر کے لیے چھپ کر ‘بیٹھنا‘ ممکن نہ رہا۔ تاہم اگر میں ہی گارا بنتا تو ظاہر ہے کہ میرے بے حس و حرکت بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہ رہتی الٹا حرکت کرتے رہنے سے شیر زیادہ متوجہ ہوتا۔ مگر اس طرح زخموں کے بھرنے کا عمل متاثر ہوتا بلکہ تکلیف دہ بھی۔
دوسرا متبادل کھڑے ہونے یا لیٹنے کا تھا۔ ساری رات کھڑا رہنا تو ممکن نہیں سو واحد طریقہ لیٹ جانا تھا۔
سارا دن ہم سوچتے رہے اور پھر اپنے خیال میں بہترین حل پر پہنچے۔ اب یہ بہترین کتنا بہترین تھا، آگے چل کر آپ بھی دیکھیں گے۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ کمپی کاری کو آنے والا راستہ کئی نالوں سے گزرتا ہے اور جگہ جگہ بانس کے گھنے جھنڈ اور جھاڑ جھنکار بھی پائے جاتے ہیں۔ انہی نالوں کی تہہ میں میرے منصوبے کے لیے مناسب جگہ موجود تھی۔
سو کمپی کاری کے قریب ترین گزرنے والے نالے کے ساتھ ہی ایک درخت پر میں پچھلی رات بیٹھا تھا اور یہ نالہ سب سے زیادہ چوڑا تھا اور اس میں ہر حجم کے گول مٹول پتھر پڑے تھے۔ میرا منصوبہ یہ تھا کہ گاؤں کی دو بیل گاڑیوں میں سے ایک کا پہیہ نکالوں اور نالے کی تہہ میں گڑھا کھود کر اندر چھپ جاؤں اور یہ پہیہ میرے اوپر رکھ کر بڑے پتھروں کی مدد سے جما دیا جائے۔ چھوٹے پتھروں اور خشک پتوں وغیرہ کی مدد سے یہ پورا پہیہ چھپا دیا جاتا۔ اس کے علاوہ میں انسانی پتلا بنا کر راستے کے سامنے کہیں رکھ دیتا۔ جس سمت یہ پتلا ہوتا، اس سمت پہیہ تھوڑا سا بلند ہوتا تاکہ پتلا دکھائی دیتا رہے اور اس پر گولی چلا سکوں۔
یہ میرا منصوبہ تھا۔ جو افراد ہندوستان سے واقف نہیں، ان کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ یہاں بیل گاڑی کے پہیے بڑے اور پانچ فٹ قطر کے ہوتے ہیں۔ پوری گولائی میں چند انچوں کے فاصلے پر تین تین انچ موٹی بارہ لکڑیاں لگی ہوتی ہیں اور چھ انچ چوڑی اور تین انچ موٹی بیرونی گولائی پر فولادی پتری چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے وسط میں ڈیڑھ انچ موٹی لوہے کی سلاخ کے لیے سوراخ ہوتا ہے جو ایکسل کا کام کرتی ہے۔ پہیے کی بیرونی جانب ایکسل کو روکنے کے لیے لوہے کی موٹی سلاخ اس کے پار لگائی جاتی ہے۔ اندرونی جانب پہیے کو پھسلنے سے روکنےکے لیے سلاخ سوراخ کے باہر اچانک موٹی ہو جاتی ہے۔ زیادہ آرام دہ گاڑیوں میں ایکسل کے لیے سوراخ کی اندرونی جانب لوہے کی پتری لگی ہوتی ہے۔ ہر دو ہفتے بعد اس کو چکنا رکھنے کی خاطر پرانا موٹر آئل لگا دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بیرونی سلاخ نکال کر پہیہ الگ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تیل کا ڈبہ ہمیشہ بیل گاڑی کے نچلے حصے سے لٹکا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پاس پڑی ہوئی کوئی بھی لکڑی یا ٹہنی استعمال کی جا سکتی ہے۔
چونکہ اس روز دیر ہو چکی تھی، سو ہم نے پہیے کا خیال بھلا کر گاؤں والوں سے پرانے کپڑے جمع کرنا شروع کر دیے۔ ان علاقوں میں پتلون نہیں ملتی، سو میں نے اپنی ایک پتلون قربان کی جس میں بانس اور بھوسہ بھر کر ہم نے دو ‘ٹانگیں‘ بنائیں۔ چونکہ شیر کو پتلون اجنبی لگتی، ہم نے اس کے اوپر دھوتی لپیٹ دی۔ دھڑ کے لیے ہم نے پرانی بوری میں بھوسہ بھرا اور اوپر دو پھٹی پرانی قمیضیں اور ایک لیرا لیرا کوٹ اوپر ڈال دیا۔ سر کو بنانے کے لیے کافی مہارت درکار تھی سو ہم نے بڑے حجم کا ناریل اٹھایا جس کے الجھے ہوئے ریشوں نے بالوں کا کام کیا۔
تہواروں اور دیگر مواقع پر ہندوستانی خواتین پراندے لگاتی ہیں جو مصنوعی بال ہوتے ہیں اور ان سے جوڑا یا کونڈے بناتی ہیں۔ پھر اس میں یاسمین یا چمبیلی کے پھول لگاتی ہیں۔ خوش قسمتی سے ایک پرانا پراندہ ہمیں مل گیا۔ اس کو کنگھا کر کے ہم نے پتلے کے سر پر جما دیا۔ پھر ایک پھٹی پرانی پگڑی ہم نے ناریل پر باندھی اور پیروں کی جگہ سلپیر رکھ باندھ دیے۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، شیروں میں سونگھنے کی حس بالکل نہیں ہوتی، اس لیے یہ پتلا شیر کے لیے کافی حقیقی دکھائی دیتا۔ تاہم اگر وہ کچھ دیر گھورتا رہتا تو شاید پتلے کے ساکت ہونے پر اسے شبہ ہو جاتا۔
رات کو میں نے زخموں پر تازہ مرہم لگا کر اگلی صبح پھر پینسلین کا ٹیکہ لگایا۔ شکر ہے کہ زخم بھرنے لگ گئے تھے۔
صبح آٹھ بجے پانچ چھ دیہاتیوں کے ساتھ مل کر ہم نے بیل گاڑی کا پہیہ مطلوبہ جگہ منتقل کر دیا۔ یہاں ہم نے چار فٹ چوڑا اور چار فٹ گہرا گڑھا کھودا۔ کام آسان تھا کہ ندی کی ریت بہت نرم تھی۔ پھر کچھ گھاس کاٹ کر تہہ میں بچھا دی گئی تاکہ نمی جذب ہو سکے کیونکہ ندی کی تہہ جتنا کھودتے جائیں، نمی بڑھتی جاتی ہے۔
اندر بیٹھا تو پتہ چلا کہ میں نیم دراز حالت میں ہی رہ سکتا ہوں جو کافی بے آرام ہوتی ہے۔ تاہم بیٹھے رہنے سے کافی بہتر تھی۔
پتلے کو ہم نے املی کے درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بٹھا دیا جو پندرہ فٹ دور نالے کے مغربی کنارے پر تھا۔ سو شیر چاہے جس سمت سے بھی آتا، فوراً پتلے کو دیکھ لیتا۔ آخر میں جتنی دیر میرے ساتھ بڑے پتھر جمع کرتے، میں رائفل لیے نگران رہا اور پھر پہیے کو چھپانے کے لیے جھاڑ جھنکار بھی جمع کیا گیا۔
آخرکار جب میں اس گڑھے میں گھاس تو پہیہ میرے سر سے محض دو انچ اوپر تھا۔ زمین اور پہیے کے درمیان پتلے کی سمت چھ انچ کا وقفہ تھا جہاں دو پتھر رکھ کر اتنی جگہ پیدا کی گئی تھی کہ میں رائفل نکال کر گولی چلا سکتا۔ پہیے کے اوپر بھاری پتھر رکھ کر اسے مضبوطی سے اس جگہ جما دیا گیا اور درمیان میں جگہ خالی تھی تاکہ ہوا کی آمد و رفت رہ سکے۔ پھر اس پہیے اور پتھروں اور آس پاس کافی جھاڑ جھنکار پھیلا دیا گیا تاکہ ایک تو شیر کو پتھروں کا ڈھیر دیکھ کر شبہ نہ ہو اور دوسرا یہ بھی کہ اگر شیر پیچھے سے آئے تو مجھے اس کے چلنے کی آواز آ جائے۔
حفاظت کے خیال سے میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ سب لوگ ایک ساتھ واپس جائیں گے اور اگلے روز صبح کو ایک ساتھ واپس آئیں گے۔ میں ساری رات یہاں ایک طرح سے قید رہتا کہ اوپر رکھے پتھر اتنے بھاری تھے کہ انہیں ہلانا ممکن نہیں تھا۔
ساڑھے چار بجے میں اپنے گڑھے میں داخل ہوا اور میرے ساتھیوں نے نصف گھنٹے میں پتھر وغیرہ سب چھپا دیے۔ پانچ بجے کے قریب میں تنہا رہ گیا۔ گڑھے کے اندر بہت گرمی تھی۔ میں نے اپنا کوٹ اور قمیض اتار دی اور باقی کپڑے بھی اتار دیتا مگر زخم کے خیال سے نہیں اتارے۔
سامنے والے سوراخ سے مجھے پتلا اور اس کے آس پاس کا کافی حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ پتلے کے پیچھے مہندی کی کچھ جھاڑیاں بھی اگی ہوئی تھیں۔ اچانک اس سمت مجھے حرکت محسوس ہوئی اور غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ حرکت نر چیتل کے کان ہلانے کی تھی جو اس پتلے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ جنگل میں بے حس و حرکت بیٹھنے کی اہمیت مجھ پر واضح ہو گئی کہ نر چیتل دس منٹ تک پتلے کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کی دلچسپی ختم ہو گئی اور راستے پر نکل آیا اور اسے عبور کر کے دوسری جانب جنگل میں غائب ہو گیا۔ چیتل اور پتلے کا درمیانی فاصلہ بمشکل بیس فٹ ہوگا مگر چیتل کو اس سے کوئی خطرہ نہ لاحق ہوا۔ اگر کوئی انسان بیٹھا ہوتا تو وہ کوئی حرکت ضرور کرتا اور پلک جھپکانے کی حرکت بھی چیتل کو بھگا دیتی۔
پھر موروں کا جوڑا آیا۔ نر نے رک کر اپنی دم پھیلائی۔ مادہ اسے دیکھنے کے علاوہ اِدھر اُدھر بھی دیکھتی رہی۔ مگر جونہی اس نے پتلا دیکھا، بھاگ کر اڑ گئی۔ نر نے مایوسی سے دم جھکائی اور پر پھڑپھڑاتا ہوا بھاگتے ہوئے اڑا۔
ہر سمت سے جنگلی مرغوں کی آوازیں آنے لگیں جو اندھیرا چھانے سے قبل اپنا پیٹ بھرنے نکلے تھے۔ پھر دیگر پرندوں کی آوازیں بھی آئیں۔ مختلف نر ماداؤں پر ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ اگرچہ مادہ ان پر توجہ نہیں دے رہی تھی مگر مادہ کی دلچسپی کے حصول کے لیے وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال رہے تھے۔
تاریکی چھانے لگی اور پھر موروں کے جوڑے نے رخصتی کی آواز نکالی کہ وہ اب جنگل میں اونچے درخت پر شاید چوتھائی میل دور بیٹھے تھے۔ سورج مغربی پہاڑیوں کے پیچھے غروب ہو گیا۔
جو قارئین ہندوستانی جنگلوں سے واقف ہیں، جانتے ہیں کہ کتنی تیزی سے دن کی جگہ رات شروع ہو جاتی ہے اور دن کے پرندے چپ ہو جاتے ہیں اور شبینہ پرندے ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ شب پرندوں کی آوازیں آنے لگیں جو اپنے بڑے پر پھڑپھڑاتے ہوئے حشرات کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے اور کچھ ریت پر پتھروں کی طرح بیٹھ گئے۔
جہاں میں بیٹھا تھا، وہاں گہری تاریکی چھا چکی تھی اور پتلا بھی درخت کی چھاؤں میں چھپ گیا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ چاندنی یہاں دس بجے کے بعد ہی پہنچے گی۔ نو بجے مجھے ندی کی تہہ میں اپنی جانب آتی ہوئی آوازوں سے پتہ چلا کہ کالا ریچھ آ رہا ہے۔ شیر کی آمد جاننے کے لیے ہم نے جو جھاڑ جھنکار جمع کیا تھا، ریچھ تقریباً اس پر پہنچ گیا۔ پھر اس کی نگاہ پتھروں اور بیل گاڑی کے پہیے پر پڑی۔ مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ اس کے ننھے سے دماغ کے اندر اس وقت کیا سوچیں پیدا ہو رہی ہوں گی۔ ‘اہاں، موٹے موٹے کیڑے، شاید دیمک بھی مل جائے، کیا پتہ چھوٹی مکھیوں والا شہد کا چھتہ ہو جن کے ڈنگ مجھ جیسے بڑے ریچھ کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔‘
انہی سوچوں کے ساتھ ہی ریچھ نے پتھر اور جھاڑیاں ہٹانی شروع کر دیں۔
میں نے سرگوشی کی، ‘شش، دفع ہو جاؤ۔‘
ریچھ نے میری آواز سنی تو رک گیا۔ شاید وہ سوچ رہا ہو کہ یہ آواز کہاں سے آئی؟ چند منٹ خاموشی کے بعد اس نے پھر کام شروع کر دیا۔ میں نے پھر سرگوشی میں اسے دفع ہونے کا کہا۔ رکنے کے بعد وہ پہیے پر چڑھا اور سیدھا مجھے گھورنے لگا۔
ریچھ کی غراہٹ کے جواب میں میں نے اسے بھاگنے کا کہا۔ بیچارہ ریچھ حواس باختہ ہو کر بھاگ نکلا اور راستے میں موجود رکاوٹوں سے ٹکراتا ہوا کنارے پر چڑھا اور بانس کے جھنڈوں سے ہوتا ہوا نکل گیا۔
ریچھ کو گئے دس منٹ ہوئے ہوں گے کہ مجھے انتہائی مدھم آوازیں آنے لگیں جیسے نرم گدیوں والا بھاری جانور چل رہا ہو۔ اس آواز کو لکھنا ممکن نہیں۔ یوں سمجھیں جیسے تکیہ بستر پر پھینکیں تو اس سے ملتی جلتی آواز۔
شیر پہنچ گیا تھا اور اب میرے عقب میں پڑے جھاڑ جھنکار کو احتیاط سے عبور کر رہا تھا۔
کیا وہ پتلے پر حملہ کرے گا؟ کیا وہ میرے سامنے سے گزرے گا؟ منتظر حالت میں یہ سوال میرے ذہن میں ابھرے۔ میرے اعصاب تناؤ کا شکار ہو رہے تھے۔
چاند نکل آیا تھا مگر اس کی روشنی ابھی درخت کے نیچے نہیں پہنچی تھی۔ پتلا مجھے دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر مجھے علم تھا کہ شیر اسے بخوبی دیکھ لے گا۔
پتہ نہیں کتنی دیر خاموشی رہی۔ پھر مجھے عین اپنے سر کے اوپر پتھر سرکنے کی آواز آئی۔ اس سمت سے حملے کا کسی کو اندازہ تک نہ تھا مگر پہلے ریچھ بھی اس انہونی کی طرف متوجہ کر چکا تھا اور اب شیر بھی پہنچ گیا تھا۔ بھلا شیر نے پتلے کو نظرانداز کر کے عین اس جگہ کا رخ کیوں کیا جہاں میں چھپا ہوا تھا؟ عین ممکن تھا کہ ریچھ شیر کو دیکھ رہا ہو اور اس طرح اس کے فرار ہونے سے اسے شبہ ہوا ہو اور وہ تحقیق کرنے آن پہنچا ہو۔ یہ بھی ممکن تھا کہ شیر کی پتلے کی سمت آمد کے راستے میں ہی میں موجود ہوں؟ وجہ چاہے جو بھی ہو، شیر اب مجھ سے محض دو گز دور اور میرے اوپر تھا۔
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اپنے اوپر مجھے شیر کے سانس لینے کی آواز آئی۔ پہیے پر رکھے ایک بڑے پتھر پر شیر کھڑا ہو کر مجھے گھورنے لگا۔
میں نے بھی وقت ضائع نہیں کیا اور اس دوران کروٹ لے کر شیر کی طرف رخ کر لیا۔ میں نے اپنی رائفل کو بھی گھمایا مگر اس کا کندہ پیندے سے ٹِک گیا۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ گڑھا چار فٹ گہرا اور چار فٹ چوڑا تھا۔ سو رائفل کو سیدھا کھڑا کرنا ممکن نہیں تھا۔ خیر رائفل کو میں محض ساٹھ درجے کے زاویے پر کھڑا کر سکا۔ بدقسمتی سے شیر دوسری سمت تھا۔
پھر واقعات تیزی سے رونما ہونے لگے۔ ریچھ کی نسبت شیر کا رویہ یکسر مختلف تھا۔ اس کے خدوخال مجھے دھندلے دکھائی دے رہے تھے۔ پھر وہ دھاڑا اور مسلسل غراتے ہوئے اس نے پہیے پر جست لگائی اور اندر پنجہ گھسا کر مجھے پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔
مجھے علم تھا کہ اگر اس کا پنجہ مجھے چھو گیا تو میری دھجیاں بکھیر دے گا۔ ہر ممکن کوشش سے گڑھے کی تہہ کے قریب رہتے ہوئے میں نے رائفل کا رخ موڑنے کی کوشش جاری رکھی۔
ان سارے واقعات کو چند لمحے لگے۔ شیر مزید قریب ہو کر دھاڑ رہا تھا کہ میری رائفل اس کے شانے سے مس ہوئی اور میں نے گولی چلا دی۔
اس محدود جگہ پر ہونے والے دھماکے کی آواز شدید محسوس ہوئی۔ شیر دھاڑتے ہوئے گولی کے دھکے سے اچھل کر پیچھے گرا۔ اگلے چند لمحے وہ پتھر، پہیے اور ریت کو چبانے کی کوششش کرتا رہا اور تکلیف سے دھاڑتا رہا۔ پھر میں نے اسے نیچے گرتے سنا اور پھر اٹھا، پھر گرا اور پھر اٹھ کر ندی کے کنارے جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ اس کے دھاڑنے کی آواز کم از کم پندرہ منٹ تک آتی رہی۔
پھر جنگل مکمل خاموش ہو گیا۔ چند منٹ قبل کے شور شرابے سے جنگل کی تمام تر مخلوقات بشمول حشرات نے خاموش ہو کر چھپنے کو ترجیح دی۔
گھنٹے گزرتے رہے۔ ایک بجے پہاڑیوں سے ہوا چلنا شروع ہو گئی اور آسمان پر تاریک بادل چھانے لگے اور چاند کو پوری طرح چھپا لیا اور پھر مغربی پہاڑوں پر بارش کی آواز آنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد یہاں بھی موٹے موٹے قطرے گرنے لگے۔ پھر موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ استوائی علاقوں کے باشندے جانتے ہیں کہ یہ بارش کتنی تیز ہوتی ہے۔ میں پوری طرح بھیگ گیا اور ساتھ ہی گڑھے میں پانی آنے لگا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ یہ ندی جو ابھی تک خشک تھی، کچھ دیر میں برساتی پانی سے بھر جائے گی۔ میں کسی چوہے کی طرح ڈوب جاؤں گا۔
اس حقیقت کے آشکار ہوتے ہی میں نے فوراً گھٹنوں کے جھک کر اپنی کمر کی ٹیک سے پہیہ ہٹانا چاہا مگر نہ ہلا۔ میرے ساتھیوں نے میرے تحفظ کی خاطر بہت وزنی پتھر جما دیے تھے جنہیں ہٹانا اکیلے میرے بس میں نہیں تھا۔
اب ایک صورت باقی بچی تھی کہ میں گولی چلانے کی نیت سے چھوڑے جانے والے چھ انچ کے سوراخ کو کھود کر بڑا کروں۔ دیوانہ وار میں نے دونوں ہاتھوں سے ریت کھودنی شروع کر دی۔ اس دوران گڑھا پانی اور ریت سے نصف بھر چکا تھا اور بھربھرے کنارے ٹوٹ رہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ اگر میں چند منٹ میں باہر نہ نکل سکا تو پھر میں پہیہ اور پتھر، سبھی مجھ پر آن گریں گے۔
جب باہر نکلنے کے لیے مناسب سوراخ ہو گیا تو میں نے اپنی رائفل کو پہیے سے باہر نکال کر رکھ دیا اور پھر پھنس پھنسا کر اس سوراخ سے نکلا۔ بارش مسلسل جاری تھی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ شیر کتنی دیر قبل اور کس سمت گیا تھا۔ سو رائفل اٹھا کر میں نے پتلے کو اٹھا کر مغربی کنارے پر رکھ دیا۔ پھر کمپی کاری جانے کے لیے میں نے نہر عبور کرنا شروع کی تو مجھے دور پہاڑوں سے برساتی پانی کا ریلا آنے کا شور سنائی دیا۔
چند منٹ میں ریلا پہنچ گیا۔ تین فٹ اونچی جھاگ بھرے پانی کی دیوار تھی جو اپنے ساتھ بہت کچھ لا رہی تھی۔ درختوں کے تنے، اکھڑے ہوئے درخت، خشک بانس اور ہر قسم کا جھاڑ جھنکار اس میں تھا۔ یہ سب کچھ گاڑی کے پہیے تک پہنچا اور سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں یہ ندی چار فٹ گہرا اور بپھرا ہوا دریا بن چکی تھی۔
اپنے بحفاظت فرار پر شکر ادا کرتے ہوئے میں نے کمپی کاری کا رخ کیا۔ بارش کے شور سے کچھ اور نہ سنائی دیا۔ تاریکی بہت گہری تھی اور ٹارچ کی روشنی محدود دائرے میں کام کر رہی تھی۔ نرم ربر کے جوتوں کے نیچے گیلی زمین انتہائی پھسلوان بن گئی تھی۔ راستے میں مجھے تین اور ندیاں عبور کرنا پڑیں جو میری نشست والی ندی سے کچھ چھوٹی تھیں مگر ان میں بھی سیلاب سا آیا ہوا تھا۔
کمپی کاری کے نصف راستے پر مجھے قریب آتی ہوئی روشنی دکھائی دی۔ کچھ دیر بعد مجھے بیرا اور رنگا کے ساتھ کچھ دیہاتی لالٹین اٹھائے آتے دکھائی دیے۔ مجھے لاحق خطرے کے بارے انہیں بروقت احساس ہو گیا تھا اور وہ آدم خور کے خطرے سے قطع نظر، میری مدد کو آ رہے تھے۔

اگلی صبح سورج خوب چمک رہا تھا۔ ہم اس گڑھے کو واپس لوٹے جہاں میں بیٹھا تھا۔ سبھی ندیوں میں اب مٹیالا پانی بہہ رہا تھا مگر اس کی گہرائی دو فٹ رہ گئی تھی۔ گڑھے کے مقام پر کہیں بھی بیل گاڑی کا پہیہ نہیں دکھائی دیا۔ شاید سیلابی پانی اسے اپنے ساتھ بہت دور تک بہا کر لے گیا ہوگا اور پہیہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہوگا۔ ہم نے دونوں کناروں کی اچھی طرح تلاشی لی مگر شیر کا کوئی نشان نہ ملا۔ بارش نے شیر کے خون اور دیگر علامات کو خوب مٹا دیا تھا۔ دو گھنٹے بعد مایوس اور تھکے ہارے ہم کمپی کاری لوٹے۔ تین دن مزید رک کر میں نے شیر کے بارے خبر کا انتظار کیا مگر مایوسی ہوئی۔ بیرا اور رنگا کا یہی خیال تھا کہ شیر زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا ہوگا۔ مگر مجھے یقین نہیں تھا کہ ان حالات میں چلائی گئی گولی سے شیر کو مہلک زخم لگا ہوگا۔ اس جانور کے شکار کے لیے لی گئی چھٹی ختم ہو گئی، سو میں کمپی کاری سے چوتھے روز نکلا اور بیرا اور رنگا کو ہدایت کی کہ وہ مسلسل صورتحال کا جائزہ لیتے رہیں۔ اگر کوئی نئی اطلاع ملتی تو پناگرام سے دھرماپوری جا کر مجھے تار بھیج کر میرے جواب کا وہیں انتظار کرتے۔ بنگلور واپسی کے دسویں روز مجھے مطلوبہ تار ملا کہ کوڈی کاری کے فارسٹ گارڈ کا ایک مال بردار گدھا مارا گیا ہے۔ واردات کے وقت کا اندازہ لگایا تو میرے پہنچنے تک کل چار روز گزر چکے ہوتے۔ سو میں نے انہیں کمپی کاری لوٹ کر مجھے حالات سے آگاہ رکھیں۔ چھ دن بعد مجھے دوسرا تار ملا کہ شیر نے دریائے چنار پر سوپاٹھی کو جانے والے راستے پر بیل گاڑیوں کے قافلے کے آخری گاڑی بان پر حملہ کیا ہے۔ یہ قافلہ مراپور کی بستی سے روانہ ہوا تھا۔ بلاشبہ یہ آدم خور کی واردات تھی۔ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں میں بذریعہ کار روانہ ہو گیا تھا۔ راستے میں بیرا اور رنگا کو لینے کے بعد ہم پناگرام کو روانہ ہوئے جہاں کار کھڑی کر کے ہم بارہ میل کے پیدل سفر پر مراپور روانہ ہو گئے۔ راستے میں ہم نے دریائے چنار بھی عبور کیا۔ راستے میں پتہ چلا کہ گاڑی بان حملے میں بچ گیا تھا کہ اس نے حملہ ہوتے ہی گاڑی سے باہر چھلانگ لگا دی تھی اور دونوں بیلوں کے درمیان کاٹھی کے نیچے چھپ گیا تھا۔ اس نے خوب شور مچانا شروع کیا اور اس کے ساتھیوں نے اس کا ساتھ دیا۔ شیر ڈر کر فرار ہو گیا۔ میں نے گاڑی بان سے موراپور میں بات کی۔ اس نے بتایا کہ شیر اچانک اس کی گاڑی کے پیچھے نمودار ہوا کہ اس کی گاڑی آخ پر چل رہی تھی اور جست لگا کر گاڑی پر سوار ہونے کی کوشش کی تو گاڑی بان نے جست لگا کر بیلوں کے درمیان پناہ لے لی۔ جب میں نے پوچھا کہ شیر کو گاڑی پر چڑھنے میں کیا دقت رہی ہوگی تو وہ بولا کہ شیر ابھی آدھا سوار ہوا تھا کہ اس نے گاڑی سے چھلانگ لگا دی تھی۔ اسی دوران سوپاٹھی سے ہمارے بعد آنے والے مسافروں نے بتایا کہ انہیں شیر کے گزشتہ رات والے پگ دریائے چنار کو جاتے دکھائی دیے تھے۔ یہ سنتے ہی ہم سوپاٹھی کو لوٹے اور فوراً ہی پگ تلاش کر لیے۔ دریائے چنار میں پانی کا بہاؤ چمک رہا تھا۔ یہاں نرم اور نم ریت پر ہمیں آدم خور کے پگ واضح دکھائی دیے۔ جسم کا زیادہ تر بوجھ اگلے بائیں پیر پر تھا اور ہر قدم پر دائیں پنجے کا معمولی سا نشان دکھائی دیتا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس جگہ مکڑیوں کی وادی دریائے چنار سے ملتی ہے۔ نصف میل نیچے کی جانب جہاں شیر گیا تھا، وہاں دریا کے وسط میں چھوٹی اور لمبی چٹان تھی۔ اس کی اونچائی چار فٹ تھی اور دریا کے وسط میں موجود اس کی لمبائی چالیس فٹ اور چوڑائی آٹھ فٹ تھی۔ میں نے رات کو اس چٹان پر بسر کرنے کا فیصلہ کیا کہ اگر شیر دریا سے واپس ہوتا تو اونچائی سے آسانی سے دکھائی دے جاتا۔ رنگا کی پرانی پگڑی، دھوتی اور بھوری صدری مانگ کر میں نے اپنے کپڑوں کے اوپر تینوں پہن لیں اور ساڑھے پانچ بجے اس چٹان پر بیٹھ گیا۔ رنگا اور بیرا اکیلے مراپور جانے سے گھبرا رہے تھے، سو انہوں نے دریائے چنار کے پاس ہی مٹھی کے اونچے درختوں کے دوشاخوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ رات کافی تاریک ہونی تھی مگر اونچی چٹان پر بیٹھ کر مجھے دریا کی سفید ریت پر تاروں کی روشنی میں آتا شیر دور سے دکھائی دے جاتا۔ اس جگہ دریا سو گز چوڑا تھا۔ مجھے علم تھا کہ شیر معذور بھی ہو چکا ہے اور ویسے بھی شیر پچاس گز سے زیادہ دور سے حملہ نہیں کرتا بلکہ ہرممکن طور پر قریب پہنچ کر حملہ کرتا ہے۔ ٹارچ کا بغور معائنہ کر کے میں نے اپنی اعشاریہ 405 بور کی رائفل بھر کر اپنے دائیں جانب رکھ لی جہاں شیر کو دکھائی نہ دیتی۔ اس کے علاوہ میں اضافی ہتھیار کے طور پر اپنی بارہ بور کی دو نالی جیفریز بھی لایا تھا۔ اس کی تنگ نالی میں بٹانے اور عام نالی میں گولی کا کارتوس تھا۔ بندوق کو میں نے بائیں جانب رکھا۔ چائے کی تھرموس، چند روٹیاں اور پائپ کی موجودگی میں صبح تک مجھے ہر طرح سے آرام تھا۔ میں اپنے کوٹ کے اوپر بیٹھ گیا کہ اس طرح پتھر بھی نہ چبھتا اور رات کو سردی ہوتی تو کوٹ پہن بھی لیتا۔ معمول کے مطابق پرندوں اور جانوروں نے آوازیں نکال کر دن کو رخصت کیا اور رات کے باسیوں نے اپنی آوازیں سنانا شروع کر دیں۔ ساڑے سات تک تاریکی چھا چکی تھی اور دریائے چنار کی سفید ریت چاروں طرف بکھری ہوئی تھی۔ نو بجے کے بعد کنارے سے ایک ہاتھی شور مچاتا اترا اور ریت پر چلنے لگا اور میری چٹان کے پاس سے گزر گیا۔ تھوڑا آگے جا کر اسے ہوا کے جھونکے نے میرے بارے خبردار کیا۔ اپنی سونڈ کو موڑ کر اس نے زمین پر مارا اور پھر مڑا تو میری زیادہ بو آئی۔ پھر وہ کنارے پر چڑھ کر جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ عام ہاتھی کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ سورج غروب ہونے کے بعد سے گیارہ بجے تک بھی میں مسلسل چاروں طرف نگران تھا۔ اچانک مجھے آنکھوں کے گوشے سے پیچھے بائیں جانب کچھ حرکت سی محسوس ہوئی۔ اس جانب دیکھا تو کچھ دکھائی نہ دیا۔ ارے، وہاں کوئی بھورا سا دھبہ تھا جو سفید ریت پر دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے منہ دوسری طرف موڑ کر پھر واپس اس جانب دیکھا تو وہ دھبہ غائب ہو چکا تھا۔ میں نے سوچا: ‘یہ عجیب بات ہے۔ کیا میری آنکھیں درست کام نہیں کر رہیں یا تھکن کا نتیجہ ہے؟‘ اس جانب غور سے دیکھنے پر مجھے دھبہ پھر دکھائی دیا، مگر اس مرتبہ وہ مجھے سے زیادہ قریب آ چکا تھا اور اب کنارے اور چٹان کے وسط تک پہنچ گیا تھا۔ اب میں کسی اور جانب دیکھنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتا تھا کہ اس دھبے کی اہمیت زیادہ تھی۔ پھر میں نے اسے پھیل کر اپنی جانب تیرتے دیکھا۔ یہ دھبہ پھیلتے اور سکڑتے ہوئے میری جانب بڑھتا رہا مگر کوئی آواز نہ پیدا ہوئی۔ اچانک مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ کیا ہے۔ یہ شیر تھا جو اپنے پیٹ کے بل جھک کر خاموشی سے میری جانب آ رہا تھا تاکہ اتنے قریب پہنچ جائے کہ حملہ کر سکے۔ میرے چہرے اور گردن سے پسینہ بہنے لگا۔ میں دہشت اور جوش سے کانپنے لگا۔ تاہم اس سے فائدہ نہیں ملنا تھا، سو میں نے گہرا سانس لے کر روک لیا۔ اس طرح میرے اعصاب قابو میں آ گئے۔ میں نے خدا سے دعا مانگی اور اپنی گود سے رائفل اٹھا کر شانے سے لگائی۔ شیر اب بھی بیس گز دور ہوگا، مگر اس نے میری حرکت دیکھی تو اسے علم ہو گیا کہ اس کی موجودگی کا راز فاش ہو گیا ہے۔ اس کے پیچھے کالے رنگ کی لکیر ہلی جو اس کی دم تھی۔ دھبہ ایک دم مختصر ہوا تاکہ حملہ کر سکے۔ میری ٹارچ کی روشنی سیدھی اس کے کھلے منہ پر پڑی۔ اس کی جست سے ایک ثانیہ قبل میری رائفل بول پڑی۔ میری گولی چلتے ہی وہ اٹھا اور آگے کو جست لگائی۔ شکر ہے کہ میری ٹارچ نہیں بجھی اور میں دوسری گولی چلا سکا۔ اس دوران شیر چٹان تک پہنچ گیا تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پچھلے زخم یا شاید اب کی پہلی گولی کی وجہ سے وہ چٹان پر نہ چڑھ سکا۔ میری تیسری گولی اس کی کھوپڑی پر لگی اور اس کا حملہ وہیں تھم گیا اور شیر نیچے ریت پر گر گیا۔ سیٹی بجاتے ہوئے سوپاٹھی کے راستے پر میں نے رنگا اور بیرا کو ان کے درختوں سے اتارا۔ میری گولیوں کی آوازیں سن کر اور مجھے آتا دیکھ کر وہ سمجھ گئے تھے کہ میں نے آدم خور کو ہلاک کر لیا ہے۔ اگلی صبح ہم نے جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیر اوسط جسامت کا اور نسبتاً کمزور نر شیر تھا۔ سترہ روز قبل گڑھے میں سے چلائی ہوئی گولی نے میری توقع سے زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ گولی اس کے دائیں شانے سے ہوتی ہوئی اور اس کی ہڈی کو توڑتے ہوئے باہر نکل گئی تھی۔ تاہم زخم اچھی حالت میں تھا اور مجھے یقین ہے کہ وقت کے ساتھ بھر بھی جاتا، مگر شیر لنگڑاتا ضرور۔گزشتہ رات کی پہلی گولی اس کے کھلے منہ سے گزری اور گردن سے نکل گئی۔ پھر بھی شیر نہ رکا۔ دوسری گولی کافی اونچی گئی تھی اور اس کے بائیں کندھے کے پیچھے داخل ہوئی اور پھیپھڑوں سے گزرتی ہوئی باہر نکل گئی۔ پھر بھی شیر نہ رکا۔ میری آخری گولی جو اس کی کھوپڑی میں پیوست ہوئی، نے آدم خور کے حملے کو روک دیا۔ شیر آدم خوری پر کیوں مائل ہوا؟ ہر شکاری یہ راز جاننے کی کوشش کرتا ہے، چاہے اس کا شکار کوئی تیندوا ہو یا پھر شیر۔ اس سے نہ صرف اس کی اپنی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ عوام الناس کو بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ شیر بھی انسانی قصور سے آدم خور بنا تھا۔ اس کی اگلی دائیں ٹانگ میں ایک پرانی گولی موجود تھی اور کہنی کے جوڑ میں پیوست ہو گئی تھی۔ یہ گولی نرم سیسے کی تھی جو پھیل گئی تھی۔ شاید ایک سال یا زیادہ عرصہ قبل کسی شکاری نے توڑے دار بندوق سے اس کو شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ رکاوٹ جو اس کے جسم کے اہم ترین جوڑ میں پیوست تھی، نے نہ صرف شیر کو بہت تکلیف پہنچائی بلکہ اس کی وجہ سے وہ اپنی عام خوراک کو شکار کرنے کے قابل نہ رہ گیا تھا۔ شیر کے شکار کرنے کے لیے سب سے اہم اس کا دائیاں پنجہ ہوتا ہے۔ بلاشبہ اسی وجہ سے شیر عام جنگلی جانوروں اور مویشیوں پر حملے کے قابل نہ رہا اور فاقوں کی بجائے اس نے انسانوں کو شکار کرنا شروع کر دیا۔

کینتھ اینڈرسن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عالم بخش اور کالا ریچھ از کیینتھ