کون جانے کہاں ہے شہرِ سکوں
قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جنوں
نورِ منزل مجھے نصیب کہاں
میں ابھی حلقۂِ غبار میں ہوں
یہ ہے تاکید سننے والوں کی
واقعہ خوشگوار ہو تو کہوں
کن اندھیروں میں کھو گئی ہے سحر
چاند تاروں پہ مار کر شب خوں
تم جسے نورِ صبح کہتے ہو
میں اسے گردِ شام بھی نہ کہوں
اب تو خونِ جگر بھی ختم ہوا
میں کہاں تک خلا میں رنگ بھروں
جی میں آتا ہے اے رہِ ظلمت
کہکشاں کو مروڑ کر رکھ دوں
شکیب جلالی
اگلا پڑھیں
اردو غزلیات
19 دسمبر, 2019
یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
اردو غزلیات
29 دسمبر, 2019
جیسے راکھ دمک اٹھتی ہے ، جیسے غبار چمکتا ہے
آپ کا سلام
6 نومبر, 2020
ماں
اردو غزلیات
8 مارچ, 2020
اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
آپ کا سلام
5 مارچ, 2020
پیڑوں نے دھوپ سر پہ ہے
آپ کا سلام
20 دسمبر, 2020
آستانے بنائے جاتے ہیں
آپ کا سلام
27 جون, 2025
پنہاں سے درد سے
آپ کا سلام
22 مئی, 2020
دیکھتے ہیں کیا ہو گا فیصلہ عدالت میں
اردو غزلیات
29 جون, 2020
مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے
اردو غزلیات
26 جون, 2020
ہم تم سے چشم رکھتے تھے دلداریاں بہت
19 دسمبر, 2019
یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
29 دسمبر, 2019
جیسے راکھ دمک اٹھتی ہے ، جیسے غبار چمکتا ہے
6 نومبر, 2020
ماں
8 مارچ, 2020
اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
5 مارچ, 2020
پیڑوں نے دھوپ سر پہ ہے
20 دسمبر, 2020
آستانے بنائے جاتے ہیں
27 جون, 2025
پنہاں سے درد سے
22 مئی, 2020
دیکھتے ہیں کیا ہو گا فیصلہ عدالت میں
29 جون, 2020
مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے
26 جون, 2020
ہم تم سے چشم رکھتے تھے دلداریاں بہت
سلام اردو تبصرے
متعلقہ اشاعتیں
سلام اردو سے مزید
Close
-
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا25 جون, 2020
-
بام و در ہیں ترے اشکوں سے فروزاں نیناں24 مئی, 2020