شاخوں بھری بہار میں رقص برہنگی
مہکی ہوئی وہ چادرِ گل بار کیا ہوئی
بے نغمہ و صدا ہے وہ بت خانۂِ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
وہ پھر رہے ہیں زخم بہ پا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وسعت ایوانِ رنگ و بو
دیوارِ گلستان درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیاں چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر سجائی گئی شاخِ دار بھی
شکیب جلالی

روبی جہاں
276 پوسٹیں
پچھلی تحریر
اگلی تحریر
- تبصرے
- فیس بک کے تبصرے