مشترکہ دُشمن کی بیٹی
ننھے سے اک ریستوران کے اندر
میں اور میری نیشنلسٹ کولیگز
کیٹس کی نظموں جیسے دل آویز دھند لکے میں بیٹھی
سُوپ کے پیالے سے اُٹھتی ، خوش لمس مہک کو
تن کی سیرابی میں بدلتا دیکھ رہی تھیں
باتیں ’’ہوا نہیں پڑھ سکتی‘‘، تاج محل، میسور کے ریشم
اور بنارس کی ساری کے ذکر سے جھِلمل کرتی
پاک و ہند سیاست تک آ نکلیں
پینسٹھ__اُس کے بعد اکہتّر__جنگی قیدی
امرتسر کا ٹی وی____
پاکستان کلچر__محاذِ نو__خطرے کی گھنٹی۔۔
میری جوشیلی کولیگز
اس حملے پر بہت خفا تھیں
میں نے کُچھ کہنا چاہا تو
اُن کے منہ یوں بگڑ گئے تھے
جیسے سُوپ کے بدلے اُنھیں کونین کا رس پینے کو ملا ہو
ریستوران کے مالک کی ہنس مُکھ بیوی بھی
میری طرف شاکی نظروں سے دیکھ رہی تھی
(شاید سنہ باسٹھ کا کوئی تِیر ابھی تک اُس کے دل میں ترازو تھا!)
ریستوران کے نروز میں جیسے
ہائی بلڈ پریشر انساں کے جسم کی جیسی جھلاّہٹ در آئی تھی
یہ کیفیت کچھ لمحے رہتی
تو ہمارے ذہنوں کی شریانیں پھٹ جاتیں
لیکن اُس پل ، آرکسٹراخاموش ہُوا
اور لتا کی رس ٹپکاتی، شہد آگیں آواز ، کچھ ایسے اُبھری
جیسے حبس زدہ کمرے میں
دریا کے رُخ والی کھڑکی کھلنے لگی ہو!
میں نے دیکھا
جسموں اور چہروں کے تناؤ پر
ان دیکھے ہاتھوں کی ٹھنڈک
پیار کی شبنم چھڑک رہی تھی
مسخ شدہ چہرے جیسے پھر سنور رہے تھے
میری نیشنلسٹ کولیگز
ہاتھوں کے پیالوں میں اپنی ٹھوڑیاں رکھے
ساکت و جامد بیٹھی تھیں
گیت کا جادو بول رہا تھا!
میز کے نیچے
ریستوران کے مالک کی ہنس مُکھ بیوی کے
نرم گلابی پاؤں بھی
گیت کی ہمراہی میں تھرک رہے تھے!
مشترکہ دشمن کی بیٹی
مشترکہ محبوب کی صورت
اُجلے ریشم لہجوں کی بانہیں پھیلائے
ہمیں سمیٹے
ناچ رہی تھی!
پروین شاکر