یہ کہہ کر دیے میری قسمت میں نالے
تمھاری امانت تمھارے حوالے
بس اتنی ہے دوری، یہ منزل، یہ میں ہوں
کہاں آ کے پھوٹے ہیں پاؤں کے چھالے
کروں ایسا سجدہ، وہ گھبرا کے کہہ دیں
خدا کے لیے اب تو سر کو اٹھا لے
مریضِ شب غم کی سانس آخری ہے
چراغِ سحر لے رہا ہے سنبھالے
کبھی مر بھی چُک اے مریضِ محبت
پریشان بیٹھے ہیں گھر جانے والے
قیامت ہیں ظالم کی نیچی نگاہیں
خدا جانے کیا ہو جو نظریں اٹھا لے
قمر میں ہوں مختار تنویر شب کا
ہیں میرے ہی بس میں اندھیرے اجالے
قمر جلال آبادی