شب زندگانی سحر ہو گئی
بہر کیف اچھی بسر ہو گئی
نہ سمجھے کہ شب کیوں سحر ہو گئی
ادھر کی زمیں سب ادھر ہو گئی
زمانے کی بگڑی کچھ ایسی ہوا
کہ بے غیرتی بھی ہنر ہو گئی
عمائد نے کی وضع جو اختیار
وہی سب کو مد نظر ہو گئی
گئے جو نکل دام تزویر سے
ہزیمت ہی ان کی ظفر ہو گئی
زمیں منقلب آسماں چرخ زن
اقامت بھی ہم کو سفر ہو گئی
مٹا ڈالیے لوح دل سے غبار
کسی سے خطا بھی اگر ہو گئی
براہ کرم اس کو طے کیجئے
جو ان بن کسی بات پر ہو گئی
نہ کرنا تھا بالضد مداوائے غم
بڑی چوک اے چارہ گر ہو گئی
یہ ہنگامہ آرا ہیں سب بے خبر
وہ چپ ہیں جنہیں کچھ خبر ہو گئی
اسماعیلؔ میرٹھی