مِل کے رویا اداس شاموں سے
اس کو فرصت ملی جو کاموں سے
دل بغل گیر ہو گئے آخر
بات آگے بڑھی سلاموں سے
اپنا دامن بچا کے رکھیے گا
دورِ حاضر کے نیک ناموں سے
چھین لیتی ہے وقت کی تلخی
حسنِ انداز خوش کلاموں سے
خوبیاں دیکھتا نہیں کوئی
لوگ پہچانتے ہیں داموں سے
دل کی بستی میں کچھ نہیں بچتا
دوستی جب ہو بے لگاموں سے
شاہ تک دسترس کی خواہش میں
لوگ ملتے رہے غلاموں سے
کھا گئی زندگی کو مزدوری
خون رِسنے لگا مساموں سے
منزّہ سیّد