دیکھئے رات کیسے ڈھلتی ہے
دور ابھی ایک شمع جلتی ہے
آرزو چیت بے کلی ساون
تیری نظرو ں سے رت بدلتی ہے
سبز خوشے تری خبر لائے
اب طبیعت کہاں سنبھلتی ہے
دل کی کشتی کا اعتبار نہیں
تیری آواز پر یہ چلتی ہے
تیری چپ کا علاج کیا باقیؔ
بات سے بات تو نکلتی ہے
باقی صدیقی