وہی شکست سفر کا نشاں ہے چہرے پر
بہت غبار پس کارواں ہے چہرے پر
نظر اٹھے بھی تو زخموں کی تاب لا نہ سکے
یہ آئنہ ہے کہ خنجر رواں ہے چہرے پر
خیال و خواب کے تاجر زباں سے کچھ نہ کہیں
لکھی تمام کتاب زیاں ہے چہرے پر
امید و بیم کی اک فصل رائیگاں ہوں میں
نظر میں پھول کھلے ہیں خزاں ہے چہرے پر
ملال جاں کی حقیقت کو کیا چھپاؤں میں
کہ حرف حرف وہی داستاں ہے چہرے پر
چلو کہ عذر ستم کی بھی قید ختم ہوئی
جو اک نقاب تھا وہ بھی کہاں ہے چہرے پر
پھر اس کے بعد بھی شاید ہوا چلی ہوگی
جو گرد اڑ کے پڑی تھی کہاں ہے چہرے پر
چھلک رہی ہے دل و جاں کی روشنی قیصرؔ
بجھی بجھی ہی سہی مہرباں ہے چہرے پر
قیصر الجعفری