- Advertisement -

زندگی سانس کے بغیر ممکن نہیں

بینا خان کے ناول محبت سے محبت ہے سے اقتباس

سردیوں کے دن تھے سب لوگ اس وقت خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔لیکن وہ اس وقت اپنے کمرے کی بالکنی پہ کھڑا سگریٹ پہ گریٹ پھونکتا اپنے گزرے وقت کو یاد کر رہا تھا بار بار اس کو دو بھیگی آنکھیں یاد آتیں اور دل خود سے سوال کرتا ” کیا وہ مجھے معاف کر دے گی ؟؟؟” دل و دماغ میں عجب بے چینی سی تھی تو وہ اٹھ کے واپس اپنے بیڈ پہ آگیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن پھر بھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
**********
آج اس کا انٹرویو تھا وہ بہت اکسائٹڈ تھی۔ وہ ویسے ہی بہت لیٹ ہو گئی اور پھر آگے سے ٹریفک جام وہ جی بھر کے بد مزا ہوئی وہ ابھی پریشان ہی ہو رہی تھی کہ اس کا سیل بجا۔
” اسلام و علیکم ”
دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا ” عجیب بندہ ہے فون کرتا ہے اور کچھ بولتا بھی نہیں ” وہ بڑبڑائی اتنے میں ٹریفک بھی کھل گیا اور اس نے شکر کا سانس لیا۔
*********
دسمبر کا مہینہ تھا بوسٹن میں کافی ٹھنڈ ہو رہی تھی وہ اس وقت سڑک کے کنارے پہ چل رہی تھی اردگرد سے بے گانہ کہ کوئی اسے دیکھ کے کتنا حیران ہوا ہے کتنا خوش ہے اسے ایک سال بعد دیکھ کے وہ اس سے بات کرنے کو آگے ہی بڑھا تھا کہ گاڑی میں سے ایک لڑکی اتری اور اسے اپنے ساتھ لے گئی وہ کتنی ہی دیر تک اس جگہ کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ گئی تھی۔
*********
ائیر پورٹ پہ اس وقت کافی گہماگہمی تھی اس کی آج دبئی میں میٹنگ تھی۔ وہ اور اس کا دوست اس وقت ائیرپورٹ پہ موجود تھے۔
وہ ویٹنگ روم میں بیٹھے تھے کہ اس کا سیل بجا وہ شہیر کو بتا کے کال سننے باہر آیا کال ختم ہوئی تو پیچھے سے اس کے ایک اور دوست نے آواز دی۔
” ارے وجدان کہاں گم ہو یار”
” بس یار آفس میں کام بہت ہے آج بھی میٹنگ کے سلسلے میں دبئی جا رہا ہوں”
"اوہ۔۔۔۔”
” ہاں تم سناؤ یہاں کیا کر رہے ہو؟؟؟” وہ کچھ رسمی باتوں کے بعد انہوں نے الوداع لی اتنے میں فلائیٹ کا اعلان بھی ہو گیا شہیر بھی ویٹنگ روم سے نکل کے آیا ” کہاں تھے یار”
” ایک دوست مل گیا تھا” اس نے مختصراً بتایا اور وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔
**************
جہانگیر حیدر ملک کے جانے مانے بزنس مین تھے اور ان کی بیوی مہرالنساء بیگم تھیں جو کے بہت ہمدرد اور سلجھی ہوئی خاتون تھیں ان دونوں کے دو بچے تھے وجدان اور وانیہ انہوں نے دونوں کی ہی پرورش بہت اعلٰی انداز میں کی تھی۔
وجدان نے ایم بی اے کیا تھا اور اب اپنے بابا کے ساتھ ان کے بزنس کو سنبھالتا تھا۔ وانیہ ابھی پڑھ رہی تھی۔ وجدان بہت خاموش طبع بندہ تھا اور سلجھی ہوئی نیچر کا تھا 6 فٹ سے نکلتا قد، کالی مگر چمکدار آنکھیں، کالے سلکی بال، سنہری رنگت، مردانہ وجاہت لیے 30 سالہ وجدان بے حد ہینڈسم تھا۔ بہت سی لڑکیوں نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا پر اس نے سہولت سے انکار کر دیا۔
*********
وہ آفس پہنچی تو وہاں انٹرویو دینے والوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔ وہ ویٹنگ روم میں جا کے بیٹھ گئی اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگی وہ اردگرد کاہی جائزہ لے رہی تھی کہ اس کا سیل بجا نمبر شناسا دیکھ کر اس نے کال ریسیو کی۔
” کیسی ہو ثنا”
” میں ٹھیک ہوں تم سناؤ ”
یار انٹرویو دینے آئی ہوئی ہوں پر یہاں
تو انٹرویو دینے والوں کا ہجوم لگا ہوا ہے ”
” تو تمہیں ضرورت کیا ہے جاب کی تمہارے بابا کا اپنا آفس ہے ”
” ہاں ہے بٹ یار میں اپنے own پہ کچھ کرنا چاہتی ہوں ”
” ہممممم۔۔۔۔۔۔ اوکے best of luck ”
ایک دو باتوں کے بعد اس نے کال منقطع کردی۔
**********
” تم اس وقت کہاں جا رہی تھی ہاں ٹھنڈ دیکھی ہے اور تمہاری طبیعت بھی نہیں ٹھیک ”
” بس دل چاہ رہا تھا واک کا ”
"What۔۔۔۔۔ are u mad??? ”
جینی کو زور کا جھٹکا لگا ” اتنی ٹھنڈ میں واک کا دل چاہ رہا ےھا تمہارا”
"ہاں” اس نے کہا تو جینی خاموش ہو گئی۔ ” روشنی تم سب کچھ بھول کیوں نہیں جاتی یہاں آنا بھی تو تمہارا اپنا فیصلہ تھا ” روشنی ہنوز سر جھکائے ہوئے تھی ” ہاں میرا ہی فیصلہ تھا یہاں آنا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ میں اس سے بہت دور چلی جاؤں لیکن تم جو کہتی ہو نا کہ سب بھول جاؤ تو وہ میں چاہ کے بھی بھول نہیں سکتی اور اس کے لیے میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی” اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں جینی اسے بے بسی سے دیکھ کے رہ گئی۔
**********
وہ اور شہیر آگے بڑھے کہ شہیر کو کوئی نظر آیا ” میں ابھی آتا ہوں ” کہہ کر وہ چلا گیا وہ سیل یوز کرتے ہوئے جا رہا تھا کہ کوئی اس سے آکے ٹکرایا
” اوہ سنبھل کے مس ” وجدان نے اسے بازوؤں سے تھام کر گرنے سے بچایا اس لڑکی کا چہرہ رونے کی وجہ سے گلابی ہو رہا تھا اس نے صرف ایک بار نظر اٹھا کے وجدان کو دیکھا ” تھینک یو” کہتے ساتھ وہ چلی گئی پر وجدان اپنی جگہ سے ہلنا بھول گیا یہ کیا ہوا تھا اس کے ساتھ وہ خود بھی نہ جان پایا تھا۔ ” چلیں ” شہیر نے آکے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا وجدان ایک دم ہوش میں آیا ” ہا ہاں ہاں ”
” are you ok wajdaan”
"شہیر اگر میں نہ جا سکوں تو ”
” کیا ہو گیا ہے تمہیں وجدان ابھی تک تو تم ٹھیک تھے اچانک کیا ہوگیا” شہیر یک دم پریشان ہو اٹھا ” وہ۔۔۔۔ ” وجدان نے اس طرف اشارہ کیا جہاں سے وہ گئی تھی۔
” کیا ” شہیر اس سمت دیکھا
” کچھ نہیں ” وجدان کو ایک دم احساس ہوا کہ وہ اس وقت کہاں ہے
"چلو چلیں ”
**********
آج تین دن ہو گئے تھے اسے دبئی آئے ہوئے اور ان تین دنوں میں وہ ان انکھوں کو بھلا نہ پایا تھا اسے خود بھی معلوم نی تھا کہ وہ اس کے بارے میں اتنا کیوں سوچ رہا ہے جس کے بارے میں وہ جانتا تک نہیں ہے۔
میٹنگ وغیرہ نمٹا کر وہ واپس ہوٹل میں آیا جہاں وہ اور شہیر ٹہرے ہوئے تھے اپنے روم آیا اور فوراً چینج کر کے وہ لیٹ گیا کچھ دیر ہوئی تھی آنکھیں موندے ہوئے کہ وہ آنکھیں پھر ڈسٹرب کرنے لگی کہ اتنے میں بابا کی آئی۔
” اسلام وعلیکم بابا کیسے ہیں آپ؟؟؟”
” میں ٹھیک الحمداللٰہ میرے بچے تم سناؤ” وہ خوشگوار موڈ میں بولے
” جی بابا ٹھیک ہوں ”
” میٹنگ کیسی رہی”
” جی بابا میٹنگ بہت اچھی رہی بہت جلد مثبت جواب بھی مل جایا گا ” اس نے بتایا۔
” ہممم۔۔۔ ویری گڈ میرے بیٹے مجھے فخر ہے تم پہ ایسے ہی دل لگا کے کام کرو”
” تھینک یو بابا” وہ خوشی سے بولا
” سو بیٹا اب کب واپسی ہو رہی”
"ان شآاللٰہ کل بابا ”
اوکے بیٹا فی امان اللٰہ”
بابا سے بات کرنے کے بعد اس کا ذہن کچھ حد تک بہل گیا تھا۔
************
اس کی باری آئی تو وہ اٹھی اور دروازہ نوک کیا اندر سے کم ان کی آواز پہ اس نے دروازہ کھولا۔
**************
جینی اسے لے کر گھر آگئی
” میں کچھ بناتی ہوں دونوں مل کے کھانا کھائیں گے ”
” نہیں میرا دل نہیں ہے” وہ کہہ کر اپنے کمرے میں جانے لگی
” بلکل نہیں ” جینی نے ہاتھ پکڑ کے چئیر پہ بٹھایا
” جینی پلیز”
” چپ کرو تم میں کچھ نہیں سنوں گی”
وہ اسے دیکھ کر ری گئی
” اور ویسے بھی غلطی تمہاری نہیں ہے جو تم آئے دن بیٹھ کے یہ سوگ مناتی ہو”
” میں اس ٹوپک پہ بات کرنا نہیں چاہتی”
” کیوں۔۔۔؟؟؟ کیوں نہیں کرنا چاہتی روشنی؟؟؟ ” وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
” دیکھو وہ شخص جس کے لیے آج تک تم بیٹھ کے رو رہی ہو اس نےکیا کیا تمہارے ساتھ نہ تم پہ اعتبار کر سکا نہ بھروسہ ”
وہ ہنوز سر جھکائے بیٹھی تھی ” ایسے شخص کو تو دل و دماغ سے نکال باہر کرنا چاہیے اور تم ابھی بھی اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے بیٹھی ہو بتا سکتی ہو ایسا کیوں ہے روشنی ”
وہ ٹھ کے جانے لگی تو جینی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
” ایسے نہیں روشنی مجھے جواب چاہیے ایک طرف تم کہتی ہو معاف نہیں کرو گی اسے اور دوسری طرف اس کی یاد کو دل سے لگائے بیٹھی ہو کیوں ”
” کیونکہ محبت کرتی تھی اس سے محبت کرتی ہوں اس سے اور کرتی رہوں گی اس کی ہر بےوفائی کے باوجود” وہ پھٹ پڑی ” تم کہتی ہو اسے دل و ماغ سے نکال باہر کروں تو یہ بتاؤ کہ دل و دماغ کے بغیر کوئی زندہ رہ سکتا ہے ؟؟؟ وہ میری زندگی کا حصہ تھا ہے اور ہمیشہ رہے گا کیونکہ زندگی سانس کے بغیر ممکن نہیں اور وہ تو میری ہر سانس میں بسا ہے”
” اس سے نفرت کرنا مجھے آج بھی نہیں آیا اور اس سے محبت کیے جانا میرے بس میں نہیں ”
” ہاں میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی لیکن اسے بھلانا۔۔۔۔۔” وہ بے تحاشہ رو رہی تھی جینی نے اسے بولنے دیا وہ یہی چاہتی تھی کہ وہ اپنے اندر کی گھٹن کو باہر نکال دے جینی اس کے قریب آئی اور پانی کا گلاس اس کے ہونٹوں سے لگایا وہ جینی کے گلے لگ کے رونے لگی۔

بینا خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
بینا خان کے ناول محبت سے محبت ہے سے اقتباس