- Advertisement -

دوست ہو گئے دشمن

بینا خان کے ناول محبت سے محبت ہے سے اقتباس

وہ آج آفس جلدی آگیا تھا آج آفس میں کافی رش تھا کیونکہ آج بہت سے لوگ انٹرویو دینے آئے تھے انٹرویو لیتے لیتے کافی دیر ہوگئی تھی پر اسے اب تک ڈھنگ کا بندہ نہیں مل سکا تھا اپنی کمپنی کے لیے۔
دروازہ نوک ہوا ” کم ان ” یہ کہہ کر اس نے آنے والے کو دیکھا اور اسے دیکھ کر وہ شاکڈ رہ گیا۔
جینی نے اسے زوری کھانا کھلایا اور اس کے کو سلا کے اس کے روم سے باہر آئی۔
وہ خود بھی اپنی دوست کے لیے بہت پریشان تھی لیکن چاہ کے بھی کچھ نہ کر سکتی تھی۔
صبح روشنی جاب کے لیے نکلنے لگی تو جینی نے آواز دی ” ناشتہ ریڈی ہے روشنی ناشتہ کر کے جاؤ”
” یار پہلے ہی لیٹ ہو رہی ہوں ” وہ کل کے مقابلے میں بہت فریش لگ رہی تھی۔
"کوئی لیٹ نہیں ہو رہی تم آجاؤ” وہ چئیر پہ آکے بیٹھی اور ناشتہ کرنے لگی۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ جانے لگی تو جینی نے کہا
” روشنی اپنے لیے نہیں تو دوسروں کے لیے جینا سیکھو ان لوگوں کے لیے جو تم سے پیار کرتے ہیں”
اس نے محظ سر ہلایا اور چل دی۔
*********
اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ جسے وہ پندرہ دن تک بھولا نہیں وہ یوں اس کے سامنے آجائے گی اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایک لڑکی کو دیکھ کے وہ کیوں بے خود ہو رہا ہے حالانکہ اس کے سرکل میں بہت دی خوبصورت لڑکیاں تھیں لیکن ایسا اس نے کسی کے لیے محسوس نہیں کیا تھا پھر صرف اسے دیکھ کے کیوں؟
لیکن اس کیوں کا جواب اس کے پاس نہ تھا۔
وہ اسے دیکھ کے ایک دم ہوش کی دنیا میں آیا ” ہیو آ سیٹ مس۔۔۔”
"روشانے” روشانے نے ڈیش فل کی۔
” نائس نیم” وجدان نے مسکرا کے کہا۔
” تھینکس”
وجدان نے اس کی فائل چیک کی روشانے کا تعلیمی ریکارڈ شاندار تھا
” سو مس روشانے آپ کا کہیں اکسپیرینس ہے جاب کا”
” نو سر یہ فرسٹ ٹائم ہے”
” ہممم۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں ہم یہ جاب آپ کو دے رہے ہیں آئی ہوپ کے آپ جلد کام سمجھ لیں گی”
"ان شآاللٰہ سر ” وہ خوش ہوئی خوشی سے اس کا چہرہ دمک رہا تھا وہ اسے دیکھ کر رہ گیا کیا وہ اتنی خوبصورت تھی یا اسے لگنے لگی تھی اور اس کا جواب اسے یک لفظی حرف "محبت” میں ملا تھا۔
"آپ کل سے جائن کر سکتی ہیں ”
” اوکے سر اللٰہ حافظ” وجدان نے سر ہلایا۔ یہ تصور ہی اتنا خوش کن تھا کہ وہ اب اسے روز دیکھ سکے گا۔
************
وہ گھر آئی ماما کو دیکھ کے ان کے گلے لگی ” اسلام و علیکم ماما”
” وعلیکم السلام میری گڑیا انٹرویو کیسا رہا”
” بہت ذبردست ماما مجھے جاب مل گئی ہے کل سے آفس جوائن کرنا ہے”
” یہ تو بہت اچھی بات ہے بابا کو بتایا اپنے”
” جی ماما ان کو کال کر کے بتایا تھا”
"خوب ترقی کرو بیٹا” انہوں نے روشانے کا ماتھا چوما۔
” ماما اب تع بھوک لگ رہی ہے ”
” تم فریش ہو جاؤ میں کھانا لگواتی ہوں” کہہ کر وہ چلی گئیں روشانے اپنے کمری کی طرف چل دی۔
*********
وہ گھر آیا فریش ہو کے وہ سیدھا لان میں آگیا کیونکہ شام کی چائے عموماً لان میں پی جاتی تھی وہ لان میں آیا تو وانیہ اور ماما بابا باتیں کر رہے تھے اسے آتا دیکھ کر تینوں خاموش ہوگئے ماما اس کے لیے چائے بنانے لگیں۔
” کیا باتیں ہو رہی ہیں بھئی ”
” بس کچھ خاص نہیں آؤ چائے پیو” ماما نے ٹالا وانیہ نیچے منہ کر کے مسکرا رہی تھی وجدان نے اسے دیکھا
” وانی تم بتاؤ ”
"کک کیا کیا بھائی” وانیہ بوکھلائی
” ایسی کیا بات ہے جس کی پردے داری ہو رہی ہے”
” جلدی کیوں ہو رہی ہے بھائی بہت جلد پتا چل جائے گی بات” وانیہ معنی خیزی سے بولی وجدان نے اسے گھورا تو وہ مسکرا کے چائے پینے لگی۔
رات کو کھانا کھانے کے بعد اس کی عادت تھی واک کرنا وہ واک کر کے آیا تو ماما بابا اس وقت تک اپنے کمرے میں جا چکے تھے وانیہ لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہی تھی وہ وہی چلا آیا۔
” کیا دیکھ رہی ہو گڑیا ”
” کارٹونز”
” اتنی بڑی ہوگئی ہو اور ابھی بھی حرکتیں بچوں والی ہیں” وجدان نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
” کس نے کہا بڑی ہوں میں ابھی چھوٹی سی تو ہوں میں ویسے بھی کارٹونز معصوم لوگ دیکھتے ہیں یہ بھی میری طرح معصوم ہیں ”
وجدان ہنسا ” تو ایک کا کام کیا کرو نہ تم ان کارٹونز کی جگہ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ لیا کرو کارٹونز دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی” کہہ کر وہ ہنسنے لگا وانیہ نے منہ بنا لیا
” جائیں میں نہیں بولوں گی اب آپ سے”
” اوہ ہو میری بہن تو ناراض ہو گئی تو اب بتاؤ کیسے مانے گی ”
وانیہ ایک دم سیدھی ہوئی ” وعدہ کریں کل شاپنگ پہ لے کے چلیں گے” اس نے ہاتھ آگے بڑھایا
” کل۔۔۔۔۔ کل تو میں بزی ہوں ”
” پتا تھا مجھے ” وانیہ کا پھر منہ بنا
” اوکے بابا اوکے آفس سے آکے لے جاؤں گا شاپنگ پہ شام میں تیار رہنا” وانیہ خوش ہوئی۔
"وعدہ کریں ” وجدان ہنس دیا اور اپنا ہاتھ س کے ہاتھ پہ رکھ دیا ” وعدہ”
"اچھا گڑیا یہ تو بتاؤ کہ تم تینوں کیا پلاننگ کر رہے” وہ رازداری سے بولا
” میں کیوں بتاؤں”
” بہنا ہو نا” وہ پیار سے بولا
” اوکے بتاتی ہوں ماما بابا آپ کی شادی کا سوچ رہے ہیں اور لڑکی دیکھ رہے ہیں جو میرے ہینڈسم بھائی کے ساتھ اچھی لگے ”
” وااااٹ ” وجدان کو شاکڈ لگا
” اس میں شاکڈ ہونے والی کیا بات ہے بھائی ماما بابا آپ کی شادی کرنا چاہتے ہیں اس میں برائی کیا ہے”
” وانی پلیز تم ماما بابا کو ابھی منع کردو”
"بٹ۔۔۔۔بھائی”
” پلیز ابھی کچھ نہ پوچھو” وہ اٹھ کے جانے لگا
"اوکے” وہ خاموش ہوگئی۔
وہ روم میں آکے بیڈ پہ لیٹ گیا دل و دماغ میں عجب بے چینی سی تھی جو وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا مائنڈ کو ریلکس کرنے کے لیے اس نے آنکھیں موندی تو پھر وہ آنکھیں اسے ستانے لگیں اس نے جھٹ آنکھیں وا کیں اور اٹھ بیٹھا دل میں خیال آیا کہ اپنے عزیز دوست شہیر سے شئیر کرے اور اس نے ایسا ہی کیا۔
” ہیلو شہیر”
” کیا ہوا وجدان سب خیریت ہے”
” ہاں سب خیریت ہے مجھے تم سے ایک بات شئیر کرنی ہے ” وجدان بولا
” ہاں ہاں بولو میں سن رہا ہوں”
اور پھر وجدان نے گزرے ہوئے وہ دن اور اپنی فیلنگز سب شہیر کو بتا دیں دوسری طرف شہیر حیران تھا بہت دیر تک جب وہ نہ بولا تو وجدان بولا
” اب بولو بھی سوگئے کیا”
” ہاں۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں میں حیران ہوں تم بھی کسی لڑکی میں انٹرسٹ لے سکتےہو”
” مطلب یہ کہ جوسب لڑکیوں میں لیڈی کلر کے نام سے مشہور ہے اس لیڈی کلر کو بھی کسی سے محبت ہو سکتی ہے؟؟؟” شہیر ہنس کے بولا
” محبت۔۔۔۔” وجدان چونکا
” ہاں تو اور کیا اب جلدی سے بتاؤ کون ہے وہ خوش نصیب” شہیر نے پوچھا
” خوش نصیب وہ نہیں میں ہوں ” وہ ایک ٹرانس میں بولا آنکھوں کے آگے وہ پری چہرہ چھم سے لہرایا۔
” اوئے ہوئے بھئی موصوف تو مجنوں کے مقابلا کو پہنچ رہے ہیں ” شہیر ہنسا
وجدان جھینپا ” اچھا بکو مت میں۔بزی ہون پھر بات ہو گی”
” ہاں ہاں دوست تو اب ہوگئے دشمن اب ہمارے لیے ٹائم کہاں” شہیر نے چھیڑا تو وجدان نے ہنس کے سیل آف کردیا۔
***********

بینا خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
بینا خان کے ناول محبت سے محبت ہے سے اقتباس