دیکھا نہیں جاتا مرے سردار تماشا
تم نے جو لگا رکھا ہے بیکار تماشا
کہنے کو مرے پرسشِ احوال کی خاطر
آتے ہیں لگانے مرے غم خوار تماشا
یہ لوگ تماشا ہیں تماشائی نہیں ہیں
یہ سارے خریدار، دکاں دار تماشا
یہ سانس کا اٹکا ہوا خنجر ہی نکل جائے
لازم ہے چلے آج لگاتار تماشا
کل شب بھی تماشے میں کوئی جان نہیں تھی
اور آج بھی مشکل سے ہے دو چار تماشا
اس پار بھی کیا ایسا ہی دستور ہے نافذ
ساقی ہے تماشائی تو میخوار تماشا
ہنستے ہوئے جوکر کی اگر سانس اکھڑ جائے
کہنا کہ ہوا آج ثمربار تماشا
یہ کارِ تماشا بھی ہمہ گیر ہے شاہد
اِس پار تماشا ہے تو اُس پار تماشا
افتخار شاہد