ہمہ تن عرض حال ہیں ہم لوگ
اک مجسم سوال ہیں ہم لوگ
اور کس پر یہ حادثے گزرے
آپ اپنی مثال ہیں ہم لوگ
وقت کا فیصلہ ہے چارہ گرو
زخم تم، اندمال ہیں ہم لوگ
موت اپنی نہ زندگی اپنی
کس گماں کا مآل ہیں ہم لوگ
آپ سمجھیں تو ایک حقیقت ہیں
ورنہ خواب و خیال ہیں ہم لوگ
لاکھ پردوں میں بھی نمایاں ہیں
وقت کے خدوخال ہیں ہم لوگ
چارہ سازوں کے سرد ماتھے پر
عرق انفعال ہیں ہم لوگ
زندگی کی بساط پر باقیؔ
موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ
کام لیتا ہے اک جہاں باقیؔ
ہر مصیبت کی ڈھال ہیں ہم لوگ
باقی صدیقی