- Advertisement -

دلّی کی ایک نظم

احمد ہمیش کی ایک اردو نظم

دلّی کی ایک نظم
احمد ہمیش
بہت سی باتیں ہواؤں کے بارے میں نہیں کی جاسکتیں
کیونکہ انہیں نہ کرنا ہی اچھا ہے
اور جو براہے اس کی کوئی اہمیت نہیں
اہمیت ہوتی تو میں پہلا شخص ہوتا جو اسے ضرور کرتا
پھر خشک گھاس کا ہوا میں اڑنا
کسی ایسی ہوا میں اُڑنا جس پر پیغمبروں کی گزربسر تھی
اب کون جانتاہے کہ آدمیوں اور جانوروں کی تاریخ پر بیک وقت چلنا ہے،چلتے رہنا ہے
میرے کتے مجھے معاف کردے کہ میں نے خود سے زیادہ تجھے نہیں چاہا
ان لکڑی کے ٹکڑوں کے لئے جو کاغذکے گناہوں سے دور ہیں،جو سو نہیں سکتے
کیونکہ ان پر دھوپ گرتی ہے
یا وہ کائی جواگیّان کی سطح پر اُگتی ہے
جسے ہماری پہنچ سے اُڑنے والی کوئی چیز(آ پ کسی نامعلوم چڑیا کا نام لے سکتے ہیں)نہیں دیکھ سکتی
چلو چھوڑو،یہاں بیٹھتے ہیں
پر میں تو کہیں بیٹھنے کا ڈھنگ ہی نہیں جانتا
اسی لئے چلتاہوں،یہ جانتے ہوئے کہ میں چلنے کا ڈھنگ بھی نہیں جانتا
اسی لئے بیٹھ جاتاہوں۔۔۔۔
شاید وہاں دھوپ زیادہ تھی یا یہاں دھوپ کم ہے
یہاں کچھاور ہے یا کچھ اور نہیں ہے
شاید کوئی ایسی چیز جو تھپکی دے اور کہے کہ کسی نے کچھ نہیں لکھا
وہ تو ایک وہم ہے،انجانے طور پر نیند کو جلادیتاہے،کسی سوال کو سونے نہیں دیتا
ٍ چلو اُسے اٹھالیں
چلو خوش ہولو کہ کوئی گارہاہے
وہ جوآج تک گایا نہیں گیا
یہاں مت بولنا،چپ رہنا،یہ جانتے ہوئے کہ میں تم سے زیادہ کسی گالی کے سات ہزار تیور جانتاہوں
میں اسے بھی ہٹاسکتاہوں جسے ہٹانے کے لئے اپنے زندہ ہونے کا آڈمبر رچانا پڑتاہے
عدم وجود کے اس کال میں چلتے رہو،یہاں تک کہ تم سے کہلوایا جائے کہ تم روٹی اور پانی کا
مطلب نہیں جانتے
ایک جیتی جاگتی شہوت کو پہچان نہیں سکتے
چلو مان لیا کہ بہت کچھ یونہی ہوجاتاہے،پھر بھی بہت کچھ یونہی نہیں ہوتا،نہیں ہوتا،نہیں ہوتا،نہیں ہوتا
چاہے نامعلوم سے نامعلوم کے بیچ کوئی بے وقوف کتنی ہی کالی دھول کیوں نہ اُڑاے
مثلاً تم ٹھوکر سے نہیں کہہ سکتے کہ جوتے کی نوک سے سمجھوتہ کرلے
جوتے کی نوک تو ٹھوکر ہی ہوتی ہے
ایک معمولی کیل بھی ڈکٹیٹر ہوتی ہے
ایڑھی کی کھال میں چبھنے سے پہلے پوچھتی نہیں
یہ جانتے ہوئے کہ میں وہ ہوں جسے ا س کے پاؤں خوب جانتے ہیں
جینے کے لئے یہی کافی ہے یا یہ کافی نہیں ہے
میں نہیں جانتا کہ کوئی کیا دے سکتاہے سوائے اس کے کہ وہ کچھ لے نہیں سکتا
اور کون ہے جویہ دعویٰ کرے کہ اسے کچھ دیا گیا ہے
اور اس نے کچھ لیا ہے۔۔۔۔۔
مثلاً اگر رات ہوچکی ہے تو اس لئے نہیں کہ اسے ہونا تھا بلکہ اس لئے کہ اس کے ہونے سے پہلے بہت کچھ ہوچکا ہے
جن لوگوں کو آنا تھا وہ آنے سے بہت پہلے جاچکے ہیں
٭٭٭

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
مشتاق یوسفی کی مزاحیہ تحریر