- Advertisement -

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے

میر تقی میر کی ایک غزل

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے

لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

آرزو اس بلند و بالا کی
کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے

دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

ہے تصنع کہ لعل ہیں وے لب
یعنی اک بات سی بنائی ہے

دل سے نزدیک اور اتنا دور
کس سے اس کو کچھ آشنائی ہے

بے ستوں کیا ہے کوہکن کیسا
عشق کی زور آزمائی ہے

جس مرض میں کہ جان جاتی ہے
دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے

یاں ہوئے خاک سے برابر ہم
واں وہی ناز و خودنمائی ہے

ایسا موتیٰ ہے زندئہ جاوید
رفتۂ یار تھا جب آئی ہے

مرگ مجنوں سے عقل گم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل