آپ کا سلاماردو نظمشعر و شاعریگلناز کوثر

یاد نہیں ہے

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

دھیرے دھیرے بہنے والی

ایک سلونی شام عجب تھی

اُلجھی سلجھی خاموشی کی

نرم تہوں میں

سلوٹ سلوٹ بھید چھپا تھا

سردیلی مخمور ہوا میں

میٹھا میٹھا لمس گھُلا تھا

دھیرے دھیرے

خواب کی گیلی ریت پہ اُترے

درد کے منظر پگھل رہے تھے

خواہش کے گمنام جزیرے

ساحل پر پھیلی خوشبو کے

مرغولوں کو نگل رہے تھے

دھیرے دھیرے

جانے کون سے موسم کے

دو پھول کھلے تھے

شہد بھری سرگوشی سن کر

جھکے جھکے سے

ہونٹ ہنسے تھے

بڑھنے لگا تھا ایک انوکھا

سَن سَن کرتا

بے کل نغمہ

یاد نہیں ہے

کہاں گرے تھے

میری بالی

اس کا چشمہ

گلناز کوثر

گلناز کوثر

اردو نظم میں ایک اور نام گلناز کوثر کا بھی ہے جنہوں نے نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے تاہم پچھلے کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انہوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی، البتہ وکیل کے طور پر پریکٹس کبھی نہیں کی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہیں، علاوہ ازیں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے عالمی ادب بھی پڑھایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ دو ہزار بارہ میں ’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button