پیار ہے ادھورا تو۔۔۔ کہ کے دیکھ لیتے ہیں
ہجر کو مکمل ہی۔۔ سہ کے دیکھ لیتے ہیں
روح ہیں اگر ہم تو۔۔ جسم چھوڑ دیتے ہیں
جسم ہے عمارت تو ڈھہ کے دیکھ لیتے ہیں
ڈوبنا پڑے تو ہم۔۔۔۔۔۔۔۔ ہنس کے ڈوب جاتے ہیں
اس طرح سے منظر سب تہ کے دیکھ لیتے ہیں
شاعروں کی عادت ہے اپنی موج میں بہنا
تم کہو تو دریا میں بہ کے دیکھ لیتے ہیں
جب کسی کے دل میں اب رہنے کے نہیں ہیں ہم
پھر کسی مکاں میں ہی رہ کے دیکھ لیتے ہیں
آپ سے محبت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو پتا تو ہے
آپ دیں اجازت تو۔۔۔ کہ کے دیکھ لیتے ہیں
ہم عدید اپنے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو نہیں دشمن
دوستوں کے لشکر میں رہ کے دیکھ لیتے ہیں
سید عدید