کبھی ٹھہَر کے سنی ہے بہاو کی آواز ؟
!سَــبُک ندی میں کسی سُست ناو کی آواز
فَضا کا شور تھمے تو دَروں سے آتی ہے
!گھٹی گھٹی سی”بچاؤ، بچاؤ” کی آواز
ہمارے بیچ یہ بڑھتا سکوت اصل میں ہے
ہمارے درمیاں بڑھتے تناو کی آواز
کسی کو بھیجتے ، سانسوں پہ بَوجھ پڑتا ہے
تبھی تو”جاؤ” میں دبتی ہے "واو ” کی آواز
بڑوں میں بحث ہے کمرے بڑھائیں آنگن میں
میں سن رہا ہوں شجر کے کٹاو کی آواز
تبھی تو آگ کے نزدیک بیٹھتا نہیں میں
مجھے الاو سے آتی ہے” آؤ ” کی آواز
یہ اضطراب اترتا ہے وزن میں مجھ پر
یہ شاعری ہے دماغی کِھنچاو کی آواز
عمیر نجمی