پہلے صدمات بھی بھلانے ہیں
اور جنازے کئی اٹھانے ہیں
سوچ کر رب سے مفلسی مانگی
دوست احباب آزمانے ہیں
مسکرائیں گلے لگائیں اسے
زخم اتنے کہاں پرانے ہیں
حکم تھا خواب کے چراغ سبھی
آنکھ کے خون سے جلانے ہیں
کچھ پرندوں کو در بدر کر کے
کچھ ہرے پیڑ بھی گرانے ہیں
خود کو مرنے سے تو بچا نہ سکے
اب فقط حوصلے بچانے ہیں
آئنے سے الجھنا ہے ارشاد
شعر دیوار کو سنانے ہیں
ارشاد نیازی