عملی محبت
کھڑے ہو گئے
حیرتوں کی قطاروں میں لمحوں کے قیدی
یہ کیسا جہاں ہے؟
زماں کے سفر میں یہ کیسا مکاں ہے؟
محبت نے چھوڑے ہیں خوابوں کے بستر
تو آؤ اسے دیکھ لو
حقیقت کی سنگلاخ دھرتی پہ کتنی خوشی سے
چلی جا رہی ہے
محبت کبھی بھیگےخوابوں کے بستر سے اتری نہیں تھی
ابھی تم نے دیکھا کہ لفظوں کے موتی
صحیفوں کے جُزدان سے اُٹھ کے
لوگوں کے ذہنوں میں رہنے لگے ہیں
مجرد یقینوں کی دھرتی کے سینے سے پھوٹے شگوفے
وفا نے بھی تعمیر کے شوق میں اپنا مسلک ہے بدلا
وفا اب مجاور کے حجرے میں شب کاٹنے کے بجائے
عمل کی کلہاڑی سے
جنگل میں رستہ بنانے گئی ہے
اسے اپنے رستے کے کانٹے ہیں چُننے
اسے اب بقا نے نیا رُخ دیا ہے
محبت نے اپنے مقدس سفر میں
سبھی لذتوں سے کنارہ کیا ہے
یہ طے کر لیا ہے
کہ ہم ایک دوجے کی زلفوں سے بڑھ کر مقدر سنواریں
کہ ہم زندگی کے سبھی امتحاں جراءتوں سے گذاریں
شاذیہ اکبر (محبت حسنِ کامل ہے)