تانگے والے کا بھائی
سید غلام مرتضیٰ جیلانی میرے دوست ہیں۔ میرے ہاں اکثر آتے ہیں۔ گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔ کافی پڑھے لکھے ہیں۔ ان سے میں نے ایک روز کہا
’’شاہ صاحب ! آپ اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ تو سنائیے‘
شاہ صاحب نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا۔
’’منٹو صاحب۔ میری زندگی دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کون سا واقعہ آپ کو سناؤں۔ ‘‘
میں نے ان سے کہا
’’جو بھی آپ کے ذہن میں آ جائے۔ ‘‘
شاہ صاحب مسکرائے۔
’’آپ مجھے بڑا پرہیز گار آدمی سمجھتے ہوں گے۔ آپ کو معلوم نہیں میں نے دس برس تک دن رات شراب پی ہے اور خوب کھل کھیلا ہوں۔ اب چونکہ دل اچاٹ ہو گیا ہے اس لیے میں نے شغل چھوڑ رکھے ہیں۔ ‘‘
میں نے پوچھا۔
’’کہیں آپ نے شادی تو نہیں کر لی؟‘‘
’’حضرت ٗ میں پانچ برس سے لاہور میں ہوں۔ اگر میں نے شادی کی ہوتی تو آپ کو اس کی اطلاع مل جاتی۔ ‘‘
’’تو کیا آپ ابھی تک کنوارے ہیں۔ ‘‘
’’جی ہاں۔ ‘‘
’’بڑے تعجب کی بات ہے ‘‘
شاہ صاحب نے ایک آہ بھری۔
’’چلیے۔ آپ کو ایک داستان سنا دوں۔ آپ اسے لکھ کر اپنے پیسے کھرے کر لیجیے گا‘‘
مجھے پیسے کھرے کرنے تو تھے، پھر بھی میں نے ان سے کہا :
’’نہیں شاہ صاحب۔ آپ اپنی داستان سنائیے ٗ دیکھیں اس کا افسانہ بنتا بھی ہے کہ نہیں۔ ویسے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں نے آپ کی داستان کو افسانے میں ڈھال لیا تو مجھے جو معاوضہ ملے گا، سب کا سب آپ کا ہو گا۔ ‘‘
شاہ صاحب ہنسے۔
’’چھوڑو یار۔ میں اپنی بیتی ہوئی زندگی کے ٹکڑوں کی قیمت وصول نہیں کرنا چاہتا۔ تم افسانہ نگار لوگ عجیب ذہن کے ہوتے ہو۔ داستان سن لو۔ باقی تم جانو۔ مجھے معاوضے وغیرہ سے کوئی سرو کار نہیں۔ ‘‘
شاہ صاحب کے لب و لہجہ سے یہ صاف ظاہر تھا کہ انہیں میری بات پسند نہیں آئی اس لیے میں نے اس کے بارے میں مزید گفتگو کرنا مناسب نہ سمجھی اور ان سے کہا :
’’آپ اپنی داستان بیان کرنا شروع کر دیں۔ ‘‘
شاہ صاحب نے میرے سگریٹ کیس سے سگریٹ نکال کر سلگایا۔ مجھے بڑا تعجب ہوا اس لیے کہ میں نے انہیں چار پانچ برس کے عرصے میں کبھی سگریٹ پیتے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا :
’’شاہ صاحب آپ سگریٹ پیتے ہیں !‘‘
شاہ صاحب کے ہونٹوں پر جن میں سگریٹ اٹکا ہوا تھا ٗ عجیب قسم کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’منٹو صاحب! آپ نے اپنی زندگی میں اتنے سگریٹ نہیں پِیے ہوں گے۔ جتنے میں پی چکا ہوں۔ آج آپ نے ایسی بات چھیڑ دی کہ خود بخود میرے ہاتھ آپ کے سگریٹ کیس کی طرف اٹھ گئے۔ وِسکی ہے آپ کے پاس؟‘‘
میں نے جواب دیا :
’’جی ہاں۔ ہے۔ ‘‘
’’تو لاؤ۔ ایک پٹیالہ پیگ۔ میں دس برس کا رکھا ہوا روزہ توڑوں گا۔ تم نے آج ایسی باتیں کی ہیں کہ میرا سارا جسم ماضی میں چلا گیا ہے۔ ‘‘
میں نے اپنی الماری سے وسکی کی بوتل نکالی اور شاہ صاحب کے لیے ایک پٹیالہ پیگ بنا کر حاضر کر دیا۔ انہوں نے ایک ہی جُرعے میں گلاس خالی کر دیا۔ آستین سے ہونٹ صاف کرنے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوئے
’’ہاں تو اب کہانی سنو۔ لیکن یہ بوتل یہاں سے غائب کر دو۔ ‘‘
میں نے وسکی کی بوتل اٹھائی اور اندر جا کر الماری میں رکھ دی۔ واپس آیا تو دیکھا شاہ صاحب دوسرا سگریٹ سلگا رہے ہیں۔ میں کرسی اٹھا کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ مسکرائے۔ لیکن یہ مسکراہٹ کچھ زخمی سی تھی۔ انھوں نے اسی زخمی مسکراہٹ سے کہنا شروع کیا۔
’’جو واقعہ میں اب بیان کرنے والا ہوں۔ آج سے قریب قریب دس برس پہلے کا ہے۔ ہمارا حلقہ ءِ احباب زیادہ تر کھاتے پیتے اور کافی مالدار ہندوؤں کا تھا۔ بڑے اچھے لوگ تھے۔ ہر روز پینے پلانے کا شغل رہتا۔ اس حلقے میں میرے علاوہ کئی اور دوستوں کو شراب کے علاوہ عورتوں کی بھی ضرورت محسوس ہوا کرتی۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی ضرورت پوری کرتے۔ مجھ سے کہتے کہ تم بھی آؤ۔ مگر میں انکار کر دیتا۔ اپنی مرضی کے خلاف۔ میرا دل ویسے چاہتا تھا کہ کسی عورت کی قربت نصیب ہو۔ ‘‘
میں نے شاہ صاحب سے کہا :
’’آپ نے شادی کیوں نہ کر لی۔ ‘‘
’’شاہ صاحب نے جواب دیا :
’’میں نے۔ سچ پوچھو تو اس کے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ ‘‘
’’کیوں۔ ‘‘
’’کبھی خیال ہی نہ آیا۔ ‘‘
’’خیر۔ آپ اپنی داستان جاری رکھیے !‘‘
شاہ صاحب نے سگریٹ کوایش ٹرے میں دبایا۔
’’پیارے منٹو! میں نے بہت کوشش کی کہ اپنے دوستوں کے ساتھ شراب نوشی کے سوا کسی اور شغل میں نہ پھنسوں۔ لیکن ان کم بختوں نے آخر ایک دن مجھے آمادہ کر ہی لیا اور یہ طے پایا کہ کسی دلال کے ذریعے خوش شکل لونڈیا منگوائی جائے۔ ہم چار دوست فلیٹ سے باہر نکلے تو ایک تانگے والا جو کہ میرا واقف تھا مجھے دیکھ کر پکار اٹھا۔
’’شاہ جی۔ شاہ جی۔ آؤ۔ آؤ:‘‘
ہم چاروں دوست اس کے تانگے بیٹھ گئے۔ اس وقت میں پورا پورا قائل ہو چکا تھا کہ شراب کے ساتھ عورت ضرور ہونی چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنی ساری شرافت اپنی جیب میں ڈال کے اس کے کان میں کہا کہ وہ کسی لونڈیا کا بندوبست کر دے۔ جب اس نے یہ سنا تو وہ بھونچکا سا ہو کر رہ گیا۔ اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ میں کبھی ایسی واہیات بات کروں گا۔ لیکن جب میں نے اس کے کان میں پھر کہا کہ مجھے واقعی ایک لڑکی کی اشد ضرورت ہے تو اس نے بڑے ادب سے کہا:
’’شاہ جی : تُسیں جو حکم دیو۔ بندہ حاضر اے۔ ایسی تگڑی کُڑی لے کے آواں گا کہ ساری عمر یاد رکھو گے۔ ‘‘
تانگے والا چلا گیا اور ہم واپس اپنے فلیٹ میں آ گئے۔ شام کا وقت تھا جب وہ یہ مہم سر کرنے کے لیے گیا تھا۔ ہم دیر تک انتظار کرتے رہے۔ طرح طرح کے خیالات میرے دل میں آتے تھے وہ لڑکی کس قسم کی ہو گی ٗ کہیں کوئی بازاری عورت تو نہ نکل آئے گی۔ ہم جب انتظار کرتے کرتے تھک گئے تو تاش کھیلنا شروع کر دی۔ رات کے بارہ بج گئے۔ ہم مایوس ہو کر باہر نکلے تو دیکھا کہ تانگے والا گھوڑے کے چابک لگاتا چلا آرہا ہے۔ پچھلی نشست پر ایک برقع پوش عورت بیٹھی تھی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ تانگے والے نے مجھ سے کہا:
’’شاہ جی! جو مال میں لینے گیا تھا وہ دِساور چلا گیا ہے۔ اب یہ دوسرا مال بڑی کوششوں سے ڈھونڈ کر لایا ہوں۔ ‘‘
میں نے اس کو پانچ روپے دیے۔ پھر ہم چاروں دوست سوچنے لگے کہ اس برقع پوش عورت کو کہاں لے جائیں۔ اپنے فلیٹ میں لے جانا ٹھیک نہیں تھا اس لیے کہ ذمہ داری تھی۔ لوگ چہ میگوئیاں کرتے۔ بات کا بتنگڑ بن جاتا۔ خواہ مخواہ ایک فضیحتا ہو جاتا۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنے دوست رحمان کے پاس چلیں۔ رات کے ایک بجے کے قریب ہم اس برقع پوش عورت کے ہمراہ رحمن کے مکان پر پہنچے۔ بہت دیر تک دستک دینے کے بعد اس نے دروازہ کھولا۔ کمبل اوڑھے تھا اسے غالباً بخار تھا۔ میں نے ساری بات دبی زبان میں بتائی تو اس نے بھی دبی زبان ہی میں کہا:
’’شاہ جی۔ آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ میرا مکان حاضر ہے ٗ لیکن آپ کو معلوم نہیں کہ اس مہینے کی بیس تاریخ کو میری شادی ہونے والی ہے۔ میرا سالا اندر ہے۔ اس کی موجودگی میں یہ سلسلہ جو آپ چاہتے ہیں ٗ کیسے ہو سکتا ہے۔ ‘‘
کچھ دیر۔ میری سمجھ میں نہ آیا اس سے کیا کہوں۔ لیکن تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس کو ڈانٹا۔
’’یار! تم نرے کھرے بے وقوف ہو۔ اپنے سالے کو چلتا کرو۔ ہم اتنی دور سے تمہارے پاس آئے ہیں۔ کیا تم میں اتنی مروّت بھی باقی نہیں رہی۔ بیس تاریخ کو تمہاری شادی آ رہی ہے ٗ ٹھیک ہے۔ لیکن آج میری شادی ہے۔ یہ میری دلہن برقع پہنے تانگے میں بیٹھی ہے۔ تمہیں اپنے دوستوں کا کچھ تو خیال آنا چاہیے۔ ‘‘
رحمان کو میری حالت پر کچھ ترس آ گیا۔ چنانچہ اس نے اپنے سالے کو جگایا اور اس کو اپنے بخار کیلیے کوئی ضروری دوا لینے کے لیے باہر بھیج دیا ٗ شہر میں قریب قریب کیمسٹوں کی سب دکانیں بند تھیں۔ لیکن اس نے اپنے سالے سے کہا :
’’شہر کی دکانیں دیکھو جہاں سے بھی تمہیں یہ دوا ملے لے کر آؤ ‘‘
لڑکا برخوردار قسم کا تھا۔ نسخہ لے کر آنکھیں ملتا چلا گیا ! اس غریب کو تانگہ بھی شاید نظر نہ آیا۔ جس میں برقع پوش عورت بیٹھی تھی۔ میں نے سوچا۔ کہ ہجوم ٹھیک نہیں ہو گا۔ معلوم نہیں میرے دوست کیا حرکتیں کریں ٗ چنانچہ میں نے ان کو کسی نہ کسی طرح آمادہ کر لیا کہ وہ تانگے میں واپس چلے جائیں۔ پانچ روپے تانگے والے کو اور دے دئیے مگر اس نے برقع پوش سواری اتاری تو کہا:
’’حضور: اس کی فیس تو دیتے جائیے۔ ‘‘
میں نے پوچھا کتنی ہے۔
’’پچیس روپے‘‘
میں نے جیب سے نوٹ نکالے اور گن کر پانچ پانچ کے پانچ نوٹ اس کے حوالے کر دئیے اور اس برقع پوش عورت کو اپنے دوست کے مکان میں لے آیا۔ ‘‘
رحمان کو بخار تھا۔ وہ علیحدہ کمرے میں جا کر لیٹ گیا میں بہت دیر تک اس برقع پوش عورت سے گفتگو کرتا رہا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ اپنے چہرے سے نقاب ہی ہٹایا۔ میں تنگ آگیا۔ اس کو ٹٹولا۔ تو وہ بالکل سپاٹ تھی۔ آخر میں نے زبردستی اس کا برقع الٹ دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب دیکھا کہ وہ عورت نہیں۔ ہیجڑا تھا۔ نہایت مکروہ قسم کا۔ ! مجھے سخت غصّہ آیا۔ میں نے اس سے پوچھا ٗ
’’یہ کیا واہیات پن ہے۔ ‘‘
اس ہیجڑے نے جس کے چہرے پر روؤں کا نیلا نیلا غبار موجود تھا ٗ بڑے نسوانی انداز میں جواب دیا ٗ
’’میں۔ تانگے والے کا بھائی ہوں۔ ‘‘
شاہ صاحب نے اس کے بعد مجھ سے کہا۔
’’منٹو صاحب ! اس دن کے بعد مجھے اس سلسلے سے کوئی رغبت نہیں رہی۔ ‘‘
سعادت حسن منٹو