سوچتا ہوں میں کہ کبھی اپنی کہانی لکھوں
جو کرگیا اب تک میں بسر وہ زندگانی لکھوں
محبت میں گزاری یا نفرتوں میں میرے یاروں
کس طرح سے گزاری اپنی یہ جوانی لکھوں
کسی نے اچھا جانا کسی نے برا جانا مجھکو
جس نے جتنا جانا یہ اس کی مہربانی لکھوں
زندگی میں مجھے دھوپ ملی تو کہیں چھائوں
دھوپ چھاؤں کی کہانی کو اپنی زبانی لکھوں
کوئی زخم دے گیا کوئی لفظوں کے تیر چھوڑ گیا
دھندلی سی ہیں ان زخموں کی وہ نشانی لکھوں
کبھی ہنستے ہوئے بتائے دن کبھی روتے ہوئے راتیں
شب و روز جو گزارے یہ اک لمبی کہانی لکھوں
عمر بھر تلاش منزل کی خواہش میں رہا یوسف
اس جستجو میں ہوئی کیا کیا نہ پریشانی لکھوں
یوسف برکاتی