- Advertisement -

طفلِ سِن رسیدہ

ستیا پال آنند کی ایک اردو نظم

طفلِ سِن رسیدہ

سو برس کا میں کب تھا، منشیِ وقت؟

کب نہیں تھے؟ ذرا بتاؤ تو
تم یقیناً کہو گے، بچپن میں
کھیلنے کودنے میں وقت کٹا
جب شباب آیا تو ؟…کہو، ہاں کہو
کیا برومند، شیر مست ہوئے؟
کیا جفا کش تھے؟ بے جگر؟ کرّار؟
آمرِ وقت کو کوئی چیلنج؟
سرکشی تختِ مستبد کے خلاف؟
کیا رہے یار باش لوگوں کی
صحبتِ ناؤ نوش میں مدہوش؟
جی نہیں، ایسی کوئی بات نہیں!
تم رہے بند کتب خانوں میں
وہ کتابیں بھی چاٹ لیں تم نے
جن کو دیمک نے بد مزہ سمجھا!
اس جوانی میں تم رہے مصروف
(جس میں سب لوگ عیش کرتے ہیں!)
منطقی پخت و پز کی کاوش میں!
لفظ بینی کی خشک عادت نے
موٹے چشمے سے ڈھانپ دیں آنکھیں!!
تم نے سیکھے عجب ذہانت سے
ُ اُتر میمانسا، سمکھیا، یوگ
نیائے، ویدانت اور گیتا گیان
فکر فی نفسہ ، ارتسام و خیال
عینیت، مادیت، ورائے وجود
صوفیانہ مراقبہ، عرفان
بودھی اثباتیت، سمادھی، دھیان….

……یہ کہولت زدہ بزرگی کے
گرد آلود فلسفے ہیں، جنہیں
اپنی نو خاستہ جوانی میں
تم نے سرمیں انڈیل کر سوچا
’’اب کلیسا، کلس، حرم ،مینار
جامعات اور ان کا بحرِ علوم
میری جاگیر ہیں ، مری املاک
میں ہوں ذی علم، جیدِ عالم!‘‘
زیست کا نیم پختہ آدھا گیان
کلمۃ الحق سمجھ لیا تم نے
اور اک جست میں لڑکپن سے
ہو گئے پیر زال، شیخ البیت!

منشیِ وقت نے کہا ….دیکھو
تم نے حدِ بلوغ سے پہلے
اپنی بے رِ یش کم سنی کے فقط
بیس برسوں میں جی لیا صد سال
اور اب طفلِ سِن رسیدہ ہو!

ستیا پال آنند

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
رانا عثمان احامر کی ایک اردو غزل