- Advertisement -

مترجم بلوچ بیوہ سے

عرفان شہود کی ایک اردو نظم

مترجم بلوچ بیوہ سے

یہ کون تَک رہی ہے ارضِ شام کی
گلی کی پارسا کوئی بتائے گا؟
یہ کِس نے چیختی ہوئی نِگہ میں خونِ تر دِیا؟
الم کے دست کار کی
ادھڑتی کھینچتی سلائی نے
بدن پہ دوچ سُرخ کردیا *
چمار کے شِکم میں کوئی کاکروچ بھر دیا
غلام کو کہیں شہید کردیا
سڑے ہوئے شہید کی یہ والدہ ہے ڈاک سے*

سُناے جا کہانی تُو سُناے جا
زمین بوس ہیکلوں کی ٹِھیکری کو ڈھونڈنے
چِلی ہے لُورا لائی سے
دُکھن کی گہری کھائی سے

فراز کے مکین جو
سروز پر نِشاط گا رہے تھے*
گگنگا رہے تھے
رِند کی کہانیاں
شگفتگی سے پھوٹتے گُلوں کی راجدھانیاں
وہ مِیر دوستین کے جوان کی دِیوانیاں *
زوال میں ہیں سب نشانیاں

یہ کہہ رہی ہیں سائباں نہیں رہا
رواں سی جھیل کی حسیں جوانیاں
تو چھپڑوں کے پانیوں سے بھر گئیں
نماز کے قیام میں مسیت ہی بدل گئی
کہ ممکنہ عذاب کی تمام پیش بندیاں
بھگت چُکی ہیں سوختہ بدن نصیب زادیاں
جو کُوٹتی ہیں صحن میں
ہنوز انتظار کی یہ بجریاں
تو چیونٹیوں کی دلدلوں میں دھنس چکی ہیں چھاتیاں
اُجڑ چکی ہیں طنطنوں کی منڈیاں

ملاپ کے بخار،
زرد منحنی سی روشنی بھی
(زندگی کی آس)
لالٹین سے بجھا گئے
نمک کے مرتبان
خواہشوں کی خُشک مچھلیاں بھی کھا گئے
نُچڑتی بیسوا مزاج زندگی
حقیر نالیوں میں گِر کے مر گئی
سورگ بانٹتے ہوئے
قبیل سے بچھڑ گئی
نگاہ میں کفن کے آنسوؤں سے ڈھانپنے کو
حوصلوں کی دادیاں
جو مانگتی ہیں
قبر کا کوئی نشاں ؟
نحیف عورتیں
سُنا رہی ہیں داستاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرفان شہود

دوچ۔بلوچی لِباس
ڈاک۔نوشکی بلوچستان
میر دوستین ہوتھ۔(پُنوں سسی)
رِند۔میر چاکر رِند
سروز۔قدیم بلوچی ساز

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عرفان شہود کی ایک اردو نظم