اردو غزلیاتسعود عثمانیشعر و شاعری

اپنا سمجھیں ، نہ پرایا سمجھیں

سعود عثمانی کی ایک اردو غزل

اپنا سمجھیں ، نہ پرایا سمجھیں

دل کو دنیا کی طرح کا سمجھیں

دل کی اپنی ہی سمجھ ہوتی ہے

جو فقط ذہن ہیں ، وہ کیا سمجھیں

اتنے ناداں بھی نہیں ہیں ہم لوگ

دھو پ ہو اور اسے سایا سمجھیں

اتنے سادہ بھی نہیں ہیں ہم لوگ

کسی دیوار کو رستا سمجھیں

اتنے تشنہ بھی نہیں ہیں ہم لوگ

غیر کے جام کو اپنا سمجھیں

ہم تو وہ لوگ ہیں ، انداز شناس

بات کم ہو تو زیادہ سمجھیں

ہم تو وہ لوگ ہیں ، اے قریۂ حرف

جو ہر اک رمز و کنایہ سمجھیں

ہم تو وہ لوگ ہیں جن سے یہ لوگ

زیست کرنے کا طریقہ سمجھیں

پھر بھی کچھ ہے جو نہیں ہے بس میں

بس یہ تقدیر کا لکھا سمجھیں

یہ جو صحرا ہے تہِ آب رواں

اب مری ذات کا حصہ سمجھیں

یہ جو زر ناب پتاور ہے ، اسے

سبز رہنے کا نتیجہ سمجھیں

یہ جو شب تاب دریچہ ہے مرا

سانس لینے کا وسیلہ سمجھیں

کچھ دھڑکنے کی صدا آتی ہے

خواب خفتہ تجھے زندہ سمجھیں ؟

کہہ رہے ہیں مرے بیتے موسم

اپنے ماضی کو بس آیا سمجھیں

دل پہ آتا ہے کسی ہاتھ کا لمس

جب بھی ہم خود کو اکیلا سمجھیں

آنکھیں ہر گل پہ ٹھٹک جاتی ہیں

ہر کسی کو ترا چہرا سمجھیں

شام اک نام پہ کھِل اٹھتی ہے

اسم سمجھیں کہ ستارہ سمجھیں

ایک آہٹ جو چلی آتی ہے

خود کو کس طرح سے تنہا سمجھیں

ایک بھولی ہوئی خوشبو مجھ سے

کہہ رہی ہے مجھے تازہ سمجھیں

بات کرتے ہوئے رک جاتا ہوں

آپ اس بات کو پورا سمجھیں

دل کو اک عمر سمجھتے رہے ہم

پھر بھی اک عمر میں کتنا سمجھیں

سعود عثمانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button