- Advertisement -

ماتھے پہ ہواؤں کے شکن دیکھ مرے دوست

ارشاد نیازی کی ایک اردو غزل

ماتھے پہ ہواؤں کے شکن دیکھ مرے دوست
اور بجھتے چراغوں کی گھٹن دیکھ مرے دوست

بیکار میں دنیا کو پڑی مرنے کی عجلت
مہنگا ہوا جاتا ہے کفن دیکھ مرے دوست

اک ڈر کی فراوانی سے جو زرد ہوئے ہیں
آ دیکھ یہ خوش رنگ بدن دیکھ مرے دوست

کیا پیڑ پرندوں کے مقدر کا لکھا ہے
یا یونہی الجھتی ہے پون دیکھ مرے دوست

دستک نے اداسی میں جسے پھینک دیا تھا
دروازے سے چمٹا ہے گہن دیکھ مرے دوست

خاموش تمناؤں کو تصویر نہیں کر
کچھ دیر صداؤں کا چلن دیکھ مرے دوست

کھلتے ہوئے پھولوں کا بھی مرجھایا ہے چہرہ
تتلی کی نظر سے تُو چمن دیکھ مرے دوست

جس آنکھ کا تعبیر سے رشتہ نہیں کوئی
اس آنکھ کے خوابوں کی چبھن دیکھ مرے دوست

کیونکر مرے الفاظ لہو سینچ رہے ہیں
کیونکر یہ لرزتا ہے سخن دیکھ مرے دوست

دریا کی تسلی سے پرے گریہ کناں ہے
امید کوئی تشنہ دہن دیکھ مرے دوست

بولہب روایت کے اندھیرے کو نگلنے
اک غار سے پھوٹی ہے کرن دیکھ مرے دوست

کس ضرب نے سینے کو مرے سرخ کیا ہے
کیوں سانسوں نے پہنا ہے رسن دیکھ مرے دوست

ہر سمت کسی خوف کے پہرے سے پریشاں
سہما ہوا ہر فردِ وطن دیکھ مرے دوست

جھلسے ہوئے اجسام اگر دیکھ لیے ہیں
اب دھوپ کے لہجے کی اگن دیکھ مرے دوست

ارشاد ادھڑتی ہوئی اس رختِ سفر میں
شل کرتی مرے پاؤں تھکن دیکھ مرے دوست

ارشاد نیازی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
علی زریون کی ایک اردو غزل