شہرِ آسیب کی غُلامی ہے
شاعری کیا ہے ، خود کلامی ہے
ہاں محبت ہے بے بہا تجھ سے
اور محبت بھی انتقامی ہے
اور تو کُچھ نہیں ہے دامن میں
ہجر , غم, اشک, ناتمامی ہے
ان گنت دوست ہیں مرے لیکن
کوئی کُوفی ہے ,کوئی شامی ہے
عکس تڑخن سے آشنا تو ہوا
آئنے پر جمی سلامی ہے
پسِ دیوار دیکھ لیتی ہیں
میری آنکھوں میں ایک خامی ہے
صبح کی دھڑکنیں ہیں الجھی اور
رات کی سانس اختتامی ہے
کیا کہوں حلق سوکھتا ہے مرا
کیا کہوں کیسی تشنہ کامی ہے
بے خبر دیکھ روشنی کی چال
جان لے تیرگی دوامی ہے
آبلے پاؤں منزلوں کا فسوں
دشت غم اور تیز گامی ہے
چین ملتا ہے دیکھ کر جس کو
ایک صورت ہے اور مقامی ہے
دھوپ سر پر اٹھائے پھرتے ہیں
اور یہ پیڑوں کی نیک نامی ہے
سب طرفدار اس کے ہیں ارشاد
شہر میں کون تیرا حامی ہے
ارشاد نیازی