- Advertisement -

مکھیاں

افسانہ نگار طاہر انجم صدیقی

کالج سے واپسی پر میں پھر اپنے پُرانے مکان کی طرف سے گزرا۔ اس مکان کے بازو والے خستہ حال جھونپڑے کی چھت اپنے آگے بنائے گئے ٹاٹ کے سائبان میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔سائبان کے نیچے لگی چارپائی کے اطراف مکّھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ انھیں دیکھ کر میں پھر سوچنے لگا ۔۔ اتنی ساری مکّھیاں میں نے اور کہاں دیکھی ہیں؟۔۔۔۔۔کچرے کے ڈھیر پر؟۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر؟؟؟۔۔۔۔۔جواب ملا کہیں اور۔۔۔۔۔میں پھر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔کہاں؟؟؟؟۔۔۔۔۔مگر جواب میں بہت سارے سوالیہ نشانات ذہن میں بکھرتے چلے گئے اور میں نے زینو چاچا کی چارپائی کی طرف دیکھا۔

پہلی نظر میں وہ دکھائی ہی نہیں دئیے۔ ذرا غور کرنے پر ان کا وجود چارپائی سے الگ ہوا اور پھر جھرّیوں کے جال کے ساتھ ننگی چارپائی کی بنت میں استعمال ہونے والی رسّیوں میں کھو سا گیا۔ رسّیاں بھی تو ان کی جلد کی طرح میلی ہو چکی تھیں۔ زینو چاچا اپنے بدن کی طرح لاغر چارپائی میں دھنسے پڑے تھے۔ اُس کے ایک پائے کو اُن کی سانسوں کی طرح باندھ کر جبراً کھڑا کیا گیا تھا۔ دوسرے پائے کو ان کی زندگی کے گراف کی طرح اونچا اٹھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔

ان کی ذرا سی حرکت سے ڈھیر ساری مکھیاں بھنبھنانے لگتیں۔ حالانکہ چارپائی کا ضروری حصہ بننے سے پہلے زینو چاچا اپنے کپڑوں پر مکھّی تک بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ سفید کپڑے تو ان کی جان ہوا کرتے تھے۔ قمیص، پتلون ہو یا کرتا پاجامہ ان کا رنگ سفید ضرور ہوا کرتا تھا۔ جوانی میں تو ان کی ٹوپی، رومال، بیلٹ، پین، جوتے اور موزے تک سفید ہوا کرتے تھے۔ وہ تھے تو پاور لوم مزدور مگر جب صبح سویرے اپنے گھر سے کھانے کا ٹفن لئے نکلتے تو ان پر کسی رئیس زادے کا گمان ہوتا تھا.

دن بھر پاور لوم سے لوہا لے کر گھر کے تانے بانے سلجھانے کے لئے زینو چاچا اپنے کمزور اور دبلے پتلے بدن کو مشقّت میں ڈالے رہتے۔ شام کو پرندوں کے اپنے آشیانوں میں لوٹ جانے کے ایک آدھ گھنٹہ بعد وہ پاور لوم کارخانے سے تھکے ہارے باہر نکلتے۔

کپاس کے ذرّات ضرورت بن کر ان کے بالوں سے چمٹے صاف دکھائی دیتے ۔ وہ بیس برس کی عمر میں ہی مکمل بوڑھے نظرآتے لیکن بوڑھے ہو جانے پر بھی جوان بیٹوں نے انھیں آرام نہیں دیا۔ وہ مسلسل محنت مزدوری کرتے رہے اور بیٹے مفت کا لقمہ توڑتے رہے۔

چھ مہینہ پہلے جب ان کے لئے چارپائی لگائی گئی تھی تب رسّیاں بڑی صاف ستھری تھیں۔ چارپائی بھی تو اچانک ہی لگانی پڑی تھی۔رات آٹھ بجے کے قریب وہ معمول کے مطابق اپنے گھر پہنچے تو باہر ہی سے انہوں نے آواز دی۔

’’شہناز!۔۔۔۔۔اے شہناز بیٹی!۔۔۔۔۔ذرا پانی دے تو۔۔۔۔۔‘‘

تھوڑی دیر بعدان کی چھوٹی بہو شہنازکچھ بڑبڑاتے ہوئے پانی بھری ٹوٹی ہوئی بالٹی لائی اور ایک جھٹکے سے رکھ کر بڑبڑاتے بڑبڑاتے ہی اندر چلی گئی۔ انہوں نے پلٹ کر جاتی ہوئی شہناز کو دیکھا اور سوچنے لگے۔

’’صرف یہی لوگ تو رہ گئے ہیں ساتھ میں۔۔۔۔۔شریفہ اور نازیہ کی شادی تو میں نے باہر دوسرے شہر میں کردی ہے۔۔۔۔۔چلو اچھا ہے سکون سے تو ہیں دونوں۔۔۔۔۔مگر یہ سلیم تو شادی کے ایک مہینے بعد ہی الگ ہو گیا تھا۔ تب سے وہ ادھر آتا ہی کہاں ہے؟۔۔۔۔۔اور کریم نے بھی تو جاتے جاتے کتنا جھگڑا کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔اب رہ گیا یہ علیم! تو یہ بھی کہاں ٹھیک سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔‘‘ بس اس سے آگے وہ مزیدکچھ نہیں سوچ سکے اور دھڑام سے زمین پر گر گئے۔ گرنے سے کئی ایک جگہ چوٹیں آئیں مگر جب انھیں اٹھایا گیا تو پتہ چلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔

تب ان کے لئے چارپائی لگادی گئی مگر اب اُسی چارپائی سے کچروں کے ڈھیر سے زیادہ بدبو اٹھتی تھی اور گندگی سے کہیں زیادہ مکّھیاں ان کے بدن اور چارپائی پر بھنبھناتی تھیں۔ تبھی تو ان کی بہو انھیں کھانا یوں دیتی جیسے کچرے کے ڈھیر پر کچرا پھینک کر بڑی تیزی سے دور چلی جانا چاہتی ہو۔ ان کا اپنابیٹا بھی تو ان سے گندگی کے ڈھیر کی طرح کترا کر گزرتا تھا مگر مکّھیاں برابر انھیں گھیرے رہتیں۔

بالکل غیر محسوس طریقے سے زینو چاچا کا بدن لاغر ہوتے ہوتے مکّھیوں کا حصّہ بنتا چلا گیا۔ کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ ہاتھ ہلتے ہی مکّھیوں کی بھبھناہٹ ایک احتجاج بن کر میرے کانوں تک پہنچی مگر میں سرد آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔ ان سے ملنے ہی کی وجہ سے ان کی بہو بیٹے سے میری ان بن ہوئی تھی۔

میں ایک دو دن کے ناغے سے برابر ان سے ملنے جایا کرتا تھا لیکن ایک روز جب میں زینو چاچا کی چارپائی کے ایک کو نے پر بیٹھا ان سے خیریت پوچھ رہا تھا کہ چاچا کی بہو اندر سے تلملاتی ہوئی آئی اور برس پڑی ۔

’’اے اکرم ! تو مت آ یا کر تو یہاں ۔۔۔۔۔‘‘

میں ہکا بکا ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور اس کی چڑھی ہوئی تیوریاں دیکھتے ہوئے بولا۔

’’شہناز بھابھی ۔۔۔۔کیا ہوا ؟۔۔۔۔۔ایسے کیوں بول رہی ہو؟۔۔۔۔۔ ‎بس بول دی نا ۔۔۔۔۔۔۔نہیں آ نا ادھر تو نہیں آنا سمجھے ۔۔۔۔اور اتنی ہی ہمدردی ہے اگر ان سے تولے جا اپنے گھر رکھ سمجھے ۔۔۔۔۔دیکھو جی ! یہ اکرم زبان چلاتاہے ۔۔۔۔۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ پیر پٹختی ہوئی گھر میں چلی گئی مگر علیم تیزی سے باہر نکلا ۔ اسے دیکھ کر میرا خون کھول اٹھا. جینس پینٹ، جینس شرٹ، گلے میں سنہری چین ۔ بائیں ہاتھ میں کڑا ، بال فلمی ہیرو کے انداز میں سنوارے ہوئے اپنے بالوں کو مزید سنوارتے سنوارتے ہوئے کہنے لگا ۔

’’سن اےاکرم ! دوبارہ ادھر آیا نا۔۔۔۔۔تو ہاتھ پاؤں توڑ ڈالوں گا سمجھا کیا؟ ۔۔۔۔۔دکھائی مت دینا ادھر دوبارہ ۔۔۔۔۔سالے لڑائی لگاتا ہے باپ بیٹے میں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’کیسی لڑائی ۔۔۔؟ میں نے زینو چا چاکی طرف دیکھا ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔۔۔میں بس اتنا سمجھ سکا کہ میرا زینو چاچا سے ملنا ان کو خراب لگتاہے ۔ ’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔چلا جاتاہوں ۔۔۔۔۔نہیں آؤں گا ۔۔۔۔۔۔چلو چاچا ۔۔۔جو غلطی ہوئی معاف کرنا ۔۔۔۔۔‘‘

میں نے جھک کر چاچا سے کہا ۔ میری آواز بھرا گئی۔ علیم اندر چلا گیا ۔ چاچا خاموش رہے ۔عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتے رہے ۔ میں نے اٹھ کراپنی چپل پہنی اور چلتے چلتے زینو چاچا کو دیکھا ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آ نسو ڈھلک رہے تھے ۔ میری آنکھیں بھیگنے لگیں…… اور کیوں نہ بھیگتیں ؟ میں انہیں کی گود میں کھیل کر تو بڑا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ رشتے میں میرے کچھ نہیں لگتے تھے ۔ بس پڑوسی تھے لیکن بچپن میں ان سے مجھے جتنا پیار ملا تھا اتنا شاید میرے والدین سے بھی نہیں ملا ۔ اپنے گھر والوں سے مجھے معلوم ہواتھا کہ صبح جب میری آ نکھ کھلتی تو ناشتے کی بجائے زینو چاچا کا تقاضا کرتا اور ان کے لئے اتنی ضد کرتا کہ کسی کے ذریعے زینو کی گود میں پہنچا ہی دیا جاتا ۔ وہ اگرناشتہ کر رہے ہو تے تو زانو پر بٹھا کر اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے نوالے میرے منہ میں ڈالتے ۔ ناشتے کے بعد میرا منہ دُھلاتے ،تولیہ سے اپنا اور میرا منہ ہاتھ پونچھتے اور مجھے گود میں اٹھاکر ہوٹل کی طرف چل دیتے ۔

اپنے لئے گرما گرم چا ئے اور میرے لئے دودھ کا آرڈر دیتے. دودھ آجانے پر چائے کا گلاس ایک طرف رکھ کر دودھ ٹھنڈا کر نے لگتے ۔ گلاس ہلاتے جاتے ۔۔۔اور اس میں پھونک بھی مارتے جاتے ۔حالانکہ وہ بہت گرم چائے پینے کے عادی تھے مگر دودھ ٹھنڈا کرنے کے چکر میں ان کی چائے بھی ٹھنڈی ہو جاتی ۔ جب مجھے دودھ پلا چکتے تو چائے ان کے انتظار میں پانی ہو جاتی ۔ وہ اسے ایک ہی سانس میں پی جاتے ۔ ہو ٹل سے واپس آ کر جب وہ مجھے گھر والوں کے سپرد کر تے تو میں ان سے چمٹ جاتا ۔ ان کے کپڑے ، داڑھی، کان، ناک یا سر کے بالوں می‍ں سے جو بھی ہاتھ آجاتا اسے مضبوطی سے جکڑ لیتا مگر جیسے تیسے کر کے وہ مجھے گھر والوں کو سونپ کر پاور لوم کارخانے کی جانب چل دیتے اور میں ان کیلئے روروکر پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا لیکن آج زینو چاچا کو دیکھنے کے بعد ایک سرد آہ بھر کر بوجھل قدموں سے مجھے آگے بڑھ جانا پڑا۔ ایسا لگتا جیسے ان کے اطراف کی مکھیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہو اور میرے ذہن کے سوالیہ نشانات بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلتے جارہے ہوں ۔۔کہاں دیکھی ہے اتنی مکھیاں میں نے ؟۔۔۔۔کہاں ہے ؟؟۔۔۔۔۔کچڑے کے ڈھیر پر ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟؟؟۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر ؟؟؟؟؟ مگر جواب میں سوالیہ نشانات ذہن میں پھیلتے چلے جاتے.

ایک دن جب میں ادھر سے گزرا ۔ زینو چاچا کی چارپائی سے مکھیوں کے بھنبھنانے کا شور نہیں اٹھا ۔ان کا جنازہ ہی اٹھ گیا ۔۔۔میں جنازے کے ساتھ ساتھ تھا ۔ جنازے کو چاروں طرف سے دیکھ چکا تھا ۔ مکھیوں کا کہیں پتہ نہیں تھا مگران کی بھنبھناہٹ برابر میرے ذہن میں گونج رہی تھی ۔میں جنازے کو کاندھا دے رہا تھا۔مکھیاں ان کے جنازے کے ساتھ نظر نہیں آرہیں تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بے شمار مکھیاں میرے ذہن میں بھنبھناتی ہوئی رینگ رہی ہوں ۔ رینگتی بھنبھناتی مکھیوں کو اپنے ذہن میں لئے لئے میں جنازے سے آگے بڑھ گیا۔قبرستان قریب آگیا ۔ میں جنازے سے آ گے بڑھتا گیا ۔ اچانک مکھیوں کی بھنبھنانے کا وہی شور میرے کان کے پردوں سے ٹکرایا ۔ میں نے فوراً پلٹ کر جنازے کی طرف دیکھا زینو چاچا کا جنازہ ان کے بیٹوں کے کاندھوں پر تھا ۔مگر مکھیاں وہاں نہیں تھیں۔ میں نے مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرف دھیان دیااور نظر گھما کرقبرستان کی دیوار کی طرف دیکھا۔ رس نکالنے والی مشین سے گنے کا سارا رس نکال کر گنّے کے تقریباً سوکھ جانے والے چھلکے کو ایک آدمی پہلے سے پڑے چھلکوں پرپھینک رہا تھا اورچھلکوں کے ڈھیر پر بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

طاہر انجم صدیقی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
افسانہ نگار طاہر انجم صدیقی