- Advertisement -

حدیث کی اقسام

پیام سحر - اویس خالد

حدیث وہ نور ہے جو اللہ پاک کی طرف سے نبی پاکؐ کے قلب اطہر میں بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لیے ودیعت فرمایا گیا اور ہمارے آقاؐ نے اس نور کو اپنے الفاظ،عمل اور تائید سے مخلوق خدا میں بہترین عملی مظاہرہ کرتے ہوئے نافذ فرمایا۔خود آقا کریمؐ نے اپنی زبان اقدس سے حدیث کی کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں فرمائی اور نہ ہی صحابہ اکرامؓ نے تقسیم فرمائی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ادوار مقدسہ میں آپؐ سے منسوب ہر بات خواہ وہ کسی بھی زریعے یا طریقے سے ملتی تھی،بلا شک و شبہ مسلم حقیقت سمجھی جاتی تھی۔بعد میں فتنوں کا دور شروع ہوا اور فرمودات نبیؐ میں ترامیم کی کوششیں شروع ہوئیں۔اس خطرناک صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اسناد کے حالات دیکھتے ہوئے علمائے دین نے مختلف جہات سے غور فرماتے ہوئے احادیث کی اقسام کا تعین فرمایا۔فن حدیث پر تفصیلی و اصولی گفتگو فرمائی۔قرآن سے استنباط کیا۔علمی بحثیں کیں۔ان کے اس علم معرفت کی وجہ سے حدیث کی اقسام وضع ہوئیں۔کم فہم لوگ حدیث کی حیثیت نہیں جانتے اور بنا سمجھے کسی حدیث پر اشکالات اور مفروضے قائم کرتے ہیں اور نا صرف جیّد محدثیں پر انگشت نمائی کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے عقائد و نظریات بھی متزلزل اور خراب کر دیتے ہیں۔
انھیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ آقاؐ جو ساری کائنات کے لیے رشد و ہدایت ہیں اور ان ؐ کا ایک ایک قول پوری امّت کے لیے قانون آفاقی کا درجہ رکھتا ہے۔لہذا امّت نے روز اوّل سے انؐ کے ایک ایک فرمان ذیشان کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ اپنائے رکھا تاکہ آقاؐ سے کوئی غلط بات منسوب نہ ہو سکے۔اقسام حدیث کا علم وہ عظیم الشان علم ہے کہ جس سے صحیح اور غلط میں وہ فرق قائم کر دیا گیا ہے کہ اس فرق کو اب کوئی نہیں مٹا نہیں سکتا۔نرے جاہل ہیں وہ لوگ جو اس علم کو سیکھے بغیر احادیث پر بحث کرتے ہیں اور اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔آئیے آسان اور مختصر انداز میں اقسام حدیث کا جائزہ لیتے ہیں۔سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ حدیث کے دو حصے ہوتے ہیں۔ایک سند اور دوسرا متن۔نبی پاکؐ سے لے کر صاحب کتاب تک روایت کرنے والوں کا سلسلہ سند کہلاتا ہے اور حدیث کے الفاظ کو متن کہتے ہیں۔متن کے اعتبار سے حدیث کی تین اقسام ہیں۔پہلی مرفوع کہلاتی ہے جس حدیث میں کسی قول،عمل،صفت یا تقریر (خاموش رہ کر اجازت دینا)کی نسبت نبیؐ سے کی گئی ہو۔دوسری موقوف کہلاتی ہے جس میں کسی صحابیؓ کے قول،فعل یا تقریر پائی جائے یا جس کی سند کا سلسلہ کسی صحابیؓ تک آ کر ختم ہو جائے۔تیسری مقطوع کہلاتی ہے کہ جس کا سلسلہ کسی تابعی تک آ کر ختم ہو جائے۔سند کے اعتبار سے حدیث کی پانچ اقسام ہیں۔پہلی متّصل،جس کے راوی شروع سے لے کر آخر تک پورے ہوں۔ایک بھی راوی درمیان سے چھوٹ نہ گیا ہو۔دوسری منقطع،جس کی سند ٹوٹی ہوئی ہو لیکن یہ معلق،مرسل اور معضل کے علاوہ ہو۔جس میں شروع کی سند ٹوٹی ہوئی نہ ہو،یعنی کسی صحابیؓ کو حذف نہ کیا گیا ہو۔اور دو لگاتار راویوں کو حذف نہ کیا گیا ہو۔
تیسری معلق،جس میں بتصرف وبل تصرف مصنف متعدد راوی ساقط ہوں۔چوتھی مرسل،جس کی اخیر کی سند سے تابعی کے بعد کوئی راوی ساقط ہو،موجود نہ ہو۔پانچویں معضل،جو کہ منقطع کے الٹ ہوتی ہے جس میں سے ایک ہی مقام سے دو راوی ساقط ہوں۔مرتبہ اور اعتبار کے لحاظ سے حدیث کی تین اقسام ہیں۔صحیح،حسن اور ضعیف۔صحیح اعلی مرتبے کی سو فیصد متفقہ حدیث ہوتی ہے۔مصنف سے لے کر نبی اکرمؐ تک تمام راوی صاحب عدالت،صاحب ضبط و عمل اور بالغ ہوں،نسیان کا احتمال تک نہ ہو،کبیرہ گناہ سے بچنے والے ہوں،صاحب مروت ہوں،سر راہ نہ کھاتے ہوں۔اس کی دو مزید اقسام ہیں۔صحیح لذاتہ اور صحیح لغیرہ۔دوسری حدیث حسن کہلاتی ہے اور اس کی بھی دو مزید اقسام ہیں۔ حسن لذاتہ،حسن لغیرہ۔حسن لذاتہ وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی عادل و ضابط ہوں،سند میں کسی جگہ سے راوی چھوٹا ہوا نہ ہو اور حدیث معلل اور شاذ نہ ہو لیکن کوئی راوی خفیف الضبط ہو۔حسن لغیرہ وہ حدیث ہے کہ جس کی قبولیت میں تردّد ہو،جیسے کوئی راوی مستور اور مجہول الحال ہو،لیکن دوسری سندوں سے اسے تقویت ملتی ہو،یہ حدیث اکرچہ ضعیف ہو گی لیکن دوسری سندوں کی تائید سے قابل استدلال ہو جاتی ہے۔تیسری قسم ضعیف کہللاتی ہے۔اس کی مزید دو اقسام ہیں۔قوی بتعدد طرق اور ضعیف متروک۔ضعیف قوی بتعدد طرق وہ حدیث ہے جس کی سند موجود ہو،موضوع اور من گھڑت نہ ہو،لیکن اس کے راوی باعتباریادداشت یا عدالت کے کمزور ہوں۔لیکن اگر دوسری سندوں سے تقویت ملے تو قبول کی جا سکتی ہے۔حدیث ضعیف کا بھی اپنا ایک وزن ہے۔یہ من گھڑت نہیں ہوتی۔اس کی سند اگرچہ ضعیف ہو لیکن اس کے راویوں کا اگر ان سے پہلے راویوں سے مل کر روایت کرنے کا مظنہ نہ ہو تو اس تعدد طرق سے حدیث ضعیف قوی ہو کر حسن لغیرہ کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔لیکن یہ فیصلہ حاذق محدثین ہی کر سکتے ہیں۔حدیث ضعیف متروک ضروری نہیں کہ ضعیف حدیث کثرت طرق سے ہمیشہ قوی ہو جائے گی۔بلکہ بعض اوقات کثرت طرق سے حدیث اور بھی ضعیف ہو جاتی ہے۔باعتبار علم حدیث کی چار اقسام ہیں۔متواتر،مشہور،عزیز،غریب۔متواتر وہ حدیث ہے جس کو ابتدائے سند سے لے کر آخر سند تک ہر زمانے میں اتنے لوگوں نے بیان کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال نظر آئے۔دوسری قسم مشہور ہے،یہ وہ ہے جس کے راوی پہلے طبقہ(صحابہؓ) میں حد تواتر کو نہ پہنچے ہوئے ہوں لیکین دوسرے اور تیسرے طبقہ(تابعین و تبع تابعین) میں اسے اتنے راویوں نے بیان کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر اکٹھاہونا محال ہو،مشہور کہلائے گی۔تیسری قسم عزیز،وہ حدیث ہے جس کے راوی ابتدائے سند سے لے کر آخر سند تک دو سے کم نہ ہوں،(دو سے زائد ہوں تو بھی حدیث عزیز ہی رہے گی)۔چوتھی قسم غریب ہے۔یہ خبر واحد ہے،جس کی سند کسی مقام پر ایک ہی راوی سے ملی ہو۔مثلا کسی ایک صحابیؓ سے کسی ایک ہی تابعی نے روایت کیا ہو۔یہ حدیث صحیح ہی کی ایک قسم ہے۔اسے حدیث فرد بھی کہتے ہیں۔شیخ عبد الحق محدث دہلوی مقدمہ مشکوۃ میں لکھتے ہیں کہ حدیث صحیح کا راوی ایک ہو تو غریب،دو ہوں تو عزیز،اگر دو سے زائد ہوں تو مشہور اور مستفیض کہیں گے اور اگر اس کے راوی کثرت میں اس درجے تک پہنچ جائیں کہ ان کا جھوٹ پر اتفاق کر لینا محال ہو تو حدیث متواتر کہلائے گی۔یہ مختصرا ًحدیث کی اقسام ہیں۔جن کو سمجھنا اشد ضروری ہے۔پروردگار ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اس علم کے نور سے منور فرمائے۔آمین۔

اویس خالد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
از قاسم خورشید