فرو آتا نہیں سر ناز سے اب کے امیروں کا
اگرچہ آسماں تک شور جاوے ہم فقیروں کا
تبسم سحر ہے جب پان سے لب سرخ ہوں اس کے
دلوں میں کام کر جاتا ہے یاں جادو کے تیروں کا
سرکنا اس کے درباں پاس سے ہے شب کو بھی مشکل
سر زنجیر زیر سر رکھے ہے ہم اسیروں کا
گئے بہتوں کے سر لڑکوں نے جو یہ باندھنوں باندھے
شہید اک میں نہیں ان باندھنوں کے سرخ چیروں کا
قفس کے چاک سے دیکھوں ہوں میں تو تنگ آتا ہوں
چمن میں غنچہ ہو آنا گلوں پر ہم صفیروں کا
ہمارے دیکھتے زیرنگیں تھا ملک سب جن کے
کوئی اب نام بھی لیتا نہیں ان ملک گیروں کا
دل پر کو تو ان پلکوں ہی نے سب چھان مارا تھا
کیا میر ان نے خالی یوں ہی ترکش اپنے تیروں کا
میر تقی میر