کورونا ویکسین – دو سال زندگی کی ضمانت
عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم
کورونا ویکسین:دو سال زندگی کی ضمانت – مگر کیسے؟
چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔کورونا وائرس جہاں دُنیا بھر میں 1.6 ملین سے زائد سے انسانوں کو نگل چکا ہے‘ وہیں اِس کے خلاف جنگ‘مزید انسانوں کو موت کے خطرات سے بچاؤ کے لیے ویکسین کا عمل شروع کیا گیا‘ جہاں کورونا ویکسین لگوانے والوں کی تعدا میں اضافہ ہوا‘ وہاں ہی افواہیں‘ خود ساختہ کہانیاں‘ فلسفے اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے‘ جیسے کورونا اور دو سالہ زندگی‘بانجھ پن‘ انسانی جسم میں چپ وغیرہ‘ اس کے باوجود پاکستان میں 5 کروڑ سے زائد شہری ویکسین لگوا چکے ہیں‘ویکسین کی دونوں خوراک لگوانے والے افراد کی تعداد 1 کروڑ 8 لاکھ جبکہ پہلی خوراک لگوانے والوں کی تعداد 3 کروڑ 9 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا کورونا ویکسین دُنیا کی پہلی ویکسین ہے؟ ویکسین صحت عامہ کی ایک سب سے کامیاب مداخلت ہے۔کورونا ویکسین کے علاوہ ہمارے پاس 26 مختلف بیماریوں سے ہماری حفاظت کے لئے ویکسین موجود ہیں: جن میں چکن پکس‘ ڈپتھیریا‘ ہیپاٹائٹس اے‘ ہیپاٹائٹس بی‘ حب‘ ایچ پی وی‘ خسرہ‘ میننگکوکال‘ ممپس‘ نموکوکل‘ پولیو‘ روٹا وائرس‘روبیلا‘ شینگ‘ ٹیٹنس‘ پرٹیوسس (اینٹیینوکسرا)‘ اینٹینو وائرس‘ انتھاء وائرس‘ انتھاء وائرس‘ انتھاء وائرس‘ انتھاء وائرس‘ ہیضہ‘جاپانی انسیفلائٹس‘ ریبیج‘ چیچک‘ تپ دق‘ ٹائیفائیڈ اور پیلا بخار۔ہمارے پاس اس وقت تقریبا 25 دیگر ویکسینیں ہیں جن میں دیگر بیماریوں کے لئے ترقی جاری ہے، بشمول COVID-19
دُنیا میں پہلے پہل ویکسین کے طریقہ کار کا استعمال خلافتِ عثمانیہ (موجودہ ترکی) کے دور میں شروع ہوا۔ تاہم‘ یہ عمل اپنی ابتدائی شکل میں تھا جو ترکی میں برطانیہ کے سفیر کی اہلیہ لیڈی میری ورٹلی مانٹیگیو کے ذریعے برطانیہ پہنچا‘ جہاں ایک معالج ایڈورڈ جینر نے چیچک سے بچاؤ کی پہلی ویکسین تیار کر کے دُنیا کو اس موذی مرض سے نجات دلائی۔
اس کہانی کی ابتدا لیڈی مانٹیگیو کے ایک خط سے ہوتی ہے جو انہوں نے 1717 میں استنبول سے لندن میں اپنے ایک دوست کو لکھا۔ اپنے خط میں انہوں نے بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ شاہی طبیب لوگوں کے جسم پر کٹ لگا کر ایک خاص چیز لگاتے ہیں جس سے وہ چیچک سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
یو ایس لائبریری آف میڈیسن اور بیلر یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی ویب سائٹس کے مطابق لیڈی مانٹیگیو کے شوہر ایڈورڈ مانٹیگیو 1717 سے 1721 تک ترکی میں برطانیہ کے سفیر تھے۔ ان کی اہلیہ میری مانٹیگیو کو چیچک کے علاج میں گہری دلچسپی تھی کیونکہ وہ اس موذی مرض کے تلخ تجربات اور مشاہدات سے گزر چکی تھیں۔ برطانیہ کے امیر کبیر گھرانے کی یہ خاتون بمشکل اس مہلک وبا سے اپنی جان بچا پائی تھیں‘ لیکن یہ مرض ان کے جسم پر کئی بدنما داغ چھوڑ گیا تھا۔ ان کے کئی قریبی عزیز اور دوست چیچک سے ہلاک ہو چکے تھے‘ جس سے ان کے دل میں خوف بیٹھ گیا تھا اور وہ اپنے بچوں کو اس وبا سے محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔
ویکسین ترکی میں چیچک کے علاج سے متعلق معلومات کے باوجود برطانیہ کے شاہی معالج اس طریقہ علاج کو ٹوٹکا قرار دے کر نظرانداز کرتے رہے‘ لیکن جب ایک برطانوی سفیر کے خاندان نے اپنی بیٹی کو اس تجربے کے لیے پیش کیا تو انہوں نے اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور تاج برطانیہ نے ڈاکٹر میڈ لینڈ کو چھ قیدیوں پر یہ تجربہ کرنے کا لائسنس دے دیا۔ انہیں کٹ لگا کر دوا دی گئی اور کچھ عرصے کے بعد انہیں چیچک زدہ ماحول میں رکھا گیا‘ لیکن وہ محفوظ رہے۔
شاہی خاندان اس تجربے سے اتنا متاثر ہوا کہ پرنسز آف ویلز کی دو بیٹیوں کو بھی یہ دوا دی گئی جس سے برطانیہ میں ویکسین کی تیاری کی جانب سنجیدہ کوششوں کی ابتدا ہوئی اور بالآخر 1796 میں ڈاکٹر ایڈورڈ جنز نے چیچک زدہ گائے سے حاصل کردہ مواد سے دُنیا کی پہلی ویکسین متعارف کرائی جس نے آنے والے برسوں میں دُنیا سے اس موذی وبا ء کا خاتمہ کر دیا۔ٍٍٍ
اس کے علاوہ ویکسین ہمیں بیماریوں کے پھیلنے سے روکتی ہیں جن کو ہم پہلے ہی شکست دے چکے ہیں:• خسرہ – کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، خسرہ کی ویکسین نے سال 23.2 اور 2000 کے درمیان 2018 ملین کی ہلاکتوں کو روکا.
• پولیو — وائلڈ پولیو کے معاملات میں 99 سے اب تک 1988٪ سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے (سنہ 350,000 میں،175 2019،XNUMX سے محض XNUMX)‘•روبیلا — اس روبیلا ویکسین کی عالمی سطح پر تعداد میں کمی جو 97٪ (670,894 میں ~ 2000،14,621 سے کم ہوکر 2018 میں XNUMX،XNUMX ہوگئی) ہے‘ 1964 اور 1965 کے درمیان‘ایک روبیلا پھیل گیا جس نے 12.5 ملین امریکیوں کو متاثر کیا‘ 2,000،11,000 نوزائیدہ بچوں کو ہلاک کیا‘ اور 2012،15 ڈالر اسقاط حمل کا باعث بنے۔ XNUMX کے بعد سے‘ ہم نے صرف ریاستہائے متحدہ میں روبیلا کے XNUMX ڈالر دیکھے ہیں • ڈیفیتیریا 1921 15,000 میں‘ XNUMX‘XNUMX افراد مر گیا ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ڈپھیریا سے 2004 اور 2014 کے درمیان‘ 2 مقدمات کل اطلاع دی گئی۔
بیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں (1914) میں کالی کھانسی‘ (1926 خناق (Diptheria) اور (1938) میں تشنج یعنی Tatnus کی ویکسین تیار کر لی گئیں تھیں اور 1948 میں تینوں کو (DPT) کے نام سے ایک ہی ٹیکے میں اکٹھا کر لیا گیا اور بچوں میں اس کا استعمال شروع کر دیا گیا۔
چیچک کی ویکسین کا استعمال پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ لیکن اس عرصے میں عوام بالخصوص والدین پولیو سے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے بے قرار تھے کیونکہ اس بیماری کے شکار بچے عمر بھر کے لئے معذور ہو جاتے تھے۔ امریکہ میں لوگوں نے وہائٹ ہاوس کو اس ویکسین کی تیاری کے لیے چندہ تک بھجوایا اور 1955 میں جب اس ویکسین کی منظوری دی گئی تو اس کا موجد جوناس ساک (Jonas Salk) ایک قومی ہیرو قرار پایا۔
سن 60 کی دہائی میں پہلے خسرہ یعنی measles کی ویکسین (1963) میں‘ پھر ممپس (mumps) 1967 اور 1969 میں Rubella یعنی خسرہ کاذب کی ویکسین کی تیاری کے بعد 1971 میں ان تینوں کو ملا دیا گیا اور اب یہ MMRویکسین کے نام سے استعمال کی جاتی ہے۔ 70 کی دہائی میں چیچک کی ویکسین کا استعمال ترک کر دیا گیا کیونکہ 1972 میں اس مرض کو صفحہ ہستی سے ختم کر نیکا اعلان ہو گیا اور اب یہ وائرس صرف چند لیبارٹریوں میں ہی مقید ہو چکا ہے۔
ویکسینز کی تیاری اور دُنیا بھر کے بچوں میں ان کا استعمال ایک روٹین بن گیا جس سے ایک اندازے کے مطابق کروڑوں نہیں تو لاکھوں بچوں اور بڑوں کی زندگیاں نہ صرف بچ گئی بلکہ عمومی سطح پر عوامی صحت کا معیار بلند ہو گیا۔ ویکسین کے میدان میں سائنسی ریسرچ جاری رہی کیونکہ یہ بہتری کا ایک مسلسل عمل ہے جو جاری رہتا ہے۔ اس طرح سن 1981 میں کالا یرقان یعنی (Hepatitis b) کی ویکسین متعارف ہوئی جس کا استعمال شروع میں اس بیماری سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے افراد میں شروع کیا گیا مثلاً وہ نوزائیدہ بچے جن کی ماؤں میں اس کے اینٹی جنز (antigens) موجود تھے یا طبعی عملہ یا منشیات کے انٹروینس (intravenous) استعمال کے عادی افراد وغیرہ وغیرہ لیکن ان کوششوں کے باوجود اس بیماری کے پھیلاؤ پر قابو نہ پایا جا سکا۔
بمطابق تحقیق اس بیماری میں مبتلا تقریباً 30 فیصد افراد تو نشاندہی والے گروپس میں شامل ہی نہ تھے اور پھر امریکی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ سن 1991 سے ہر پیدا ہونے وال بچے کو یہ ویکسین دی جائے گی اور اس ایک فیصلے کے نتیجے میں اٹھارہ سال سے کم عمر افراد میں کالا یرقان تقریباً ناپید ہو گیا۔ اسی طرح 1985 میں انفلوئنزا ٹائپ بی (Haemophilus influenza type b) ویکسین کی منظوری مل گئی اس کا استعمال عام ہو گیا اور وہ ممالک جہاں اس کا استعمال روٹین بن گیا وہاں اس انفیکشن کی شرح میں 90 فیصد تک کمی آ گئی۔
اسی طرح 1995 میں امریکہ میں چکن پاکس (chickenpox) کے خلاف بننے والی ویکسین (Varicella Vaccine کی منظوری دی گئی اور اگلی دہائی میں اس کا استعمال عام ہو گیا۔ اسی طرح HPV سے متعلقہ ویکسین کا تعارف اس صدی کی پہلی دہائی میں ہو گیا۔ سن 2014 میں گردن توڑ بخار یعنی (meningococcal serogroup B) متعارف ہوئی۔ پاکستان سے حج و عمرہ پر جانے والے زائرین تو اس سے واقف ہی ہوں گے کیونکہ آپ کو اس ویکسین کے استعمال کا سرٹیفکیٹ دکھانا لازمی ہوتا ہے۔
سعودی حکومت کی طرف سے ان ویکسینز بارے ہدایات کی تفصیل تقریباً ہر سال اپڈیٹ کی جاتی ہے۔
جیسے دوسری بیماریوں کے خلاف ویکسین تیار ہوتی گئیں اسی طرح ان کے استعمال بارے سفارشات کا جائزہ اب سالانہ بنیادوں پر لیا جاتا ہے جس کی بنیاد مسلسل تحقیق پر ہے مثلاً کن افراد کو کون سی ویکسین کی ضرورت ہے‘ کس عمر میں زیادہ فائدہ مند ہے‘ کتنی خوراکوں کی ضرورت ہے اور یہ کہ ان کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے اور یہ کہ کس طرح مختلف ویکسینز کو اکٹھا کر کے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ویکسینز ایسی بھی ہیں جو روٹین میں تو استعمال نہیں ہوتیں لیکن ان کا استعمال مختلف علاقائی انفیکشن سے مسافروں کو بچانے اور ان کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم ہے۔ مثلاً Japanese encephalitis, meningococcal Disease, Thphoid fever, Yellow fever, وغیرہ
اکیسویں صدی میں انسان نے ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے نہ صرف اس جنیاتی مواد یعنی ڈی این اے کو تفصیل سے پڑھ لیا‘ بلکہ اس کے کام کرنے کے طریقہ کار سے بھی آگاہی حاصل کر لی ہے۔ اسی علم کو بروے کار لاتے ہوئے ٹیکنالوجی کی مدد سے جنوری 2020 میں چین نے کرونا وائرس کی جنیاتی تفصیل جاری کر دی تھی۔
chip انسانی جسم میں داخل کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے انسانوں کو کنٹرول کیا جائے گا اور یہ کہ اس ویکسین کے ذریعے انسانی جنیاتی مواد یعنی ڈی این اے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔خوف زدہ صرف خواتین نہیں‘ بعض دعوؤں میں ویکسین کی وجہ سے مردوں کی تولیدی صحت سے متعلق بھی افواہیں پھیلائی جا رہی ہے۔ امریکا میں اس بابت ہونے والی تحقیق نے متضاد نتائج بتائے ہیں۔محققین نے ویکسین لگوانے والے مردوں کا مطالعہ کیا اور ان کی تولیدی صحت میں کوئی فرق نوٹ نہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں 45 مردوں کے اسپرمز کا ویکسین لگوانے سے پہلے اور بعد میں مطالعہ کیا گیا۔
دوسری جانب میامی یونیورسٹی کے شعبہ یرولوجی کے پرفیسر رامازمے نے سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والے افواہوں کو رد کرتے ہوئے ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ تولیدی صحت میں خرابی ویکسین کی وجہ سے نہیں ہو رہی البتہ کورونا وائرس کے انفیکشز کی صورت میں تولیدی صحت پر نہایت مضر اثرات دیکھے گئے ہیں۔ یہ دونوں باتیں موجودہ سائنسی علم کے مطابق غلط ہیں۔ ہاں انسانی خیالات پر اثرانداز ہونے کی کوشش انتہائی اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے الیکٹرانک آلات جن میں موبائل فون‘ماڈرن فزکس کے اصولوں اور الگوردم (algorithm) کو سمجھنا ہو گا۔ڈاکٹروں کے تجربات‘ سائنسی تحقیقات کے علاوہ من حاصل امت مسلمہ ہمارا یہ یقین‘ ایمان ہے کہ زندگی‘موت کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے‘ موت دوسال تو کیا دو سکینڈ کی ضمانت بھی نہیں ہے۔ ہمیں حقائق کو دیکھنا‘ سمجھنا ہو گا۔کہ کورونا دو سال کی ضمانت ہے‘مگر کیسے؟؟فیصلہ ہمارا
عابد ضمیر ہاشمی