وحید احمد
وحید احمد کا ناول. مندری والا، وحید احمد ادبی دنیا میں ناول نگار اور شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں. مندری والا ۔ناول میں علاقائی لسانی مذہبی، فرقہ واریت دہشتگردی غیر ملکی ہتھ کنڈوں با اثر اور بے ضمیر کٹھ پتلیاں طبیعات مابعد طبیعات سیاست تاریخ اخلاقیات نفسیات کو نہایت خوبصورت انداز سے بیان کیا یے. مندری پنجابی لفظ جس کو اردو میں بھی مندری ہی کہا جاتا ہے مندی ایک بالی یا کاٹنے کی طرح ہوتی ہے جو عموماً کان میں ڈالی جاتی ہے. یہ ناول مندری والے اور اس کی بیٹی شینا کی کہانی ہے جو اس انسانوں کی دنیا سے الگ ایک پر سکون ماحول میں رہنے کو ترجیع دیتے ہیں کیونکہ اس دینا میں مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کیا جاتا ہے ہر طرف خوف کی دکانداری یے ہر شخص نے دہن کی الماری میں یہ در تہ خوف سجا رکھا ہے سب اسی جنس کا کارو بار کرتے ہیں خوف کے تاجر ہیں سب اسی پیدا وار کے خریدار ہیں لوگ خوف کے سہارے زندگی گزارتے ہیں کتنے لوگ ہیں جو مذہب کو رومانوی نظریہ سمجھ کر اپناتے ہیں موت کے خوف سے اپناتے ہیں ان کے مذہب سے موت نکال دی جائے تو ان کا مذہب اپنی موت اپ مر جاتا ہے خوف کا پہیہ چلتا ہے کارخانوں اور سڑکوں پر خوف کا پرندہ ہوا میں اڑتا ہے انسانوں سے بو آتی ہے حکومت کی بو ہوتی ہے جو پھیلتی ہے اور مشام جام میں سوہیوں کی طرح چھبتی ہے شریانین اڈھیڑتی یے نہیں پھاڑتی یے سوچ مفلوج کرتی ہے ضمیر کا گلہ گھونٹتی ہے قویٰ مضمحل کرتی ہے خکومت مردار جسم کی طرح ملک کے تمام شہروں قصبوں گاوں کھلیانوں پہاڑوں ندیوں دریاوں اور سمندروں میں پڑی ہوتی ہے کئی کھوپڑی اور پھٹے پیٹ کے ساتھ جس کی انتڑیوں میں گدھ چونچوں اور پنجوں کے نشتر چھبو کر مرا ہوا فضلہ ہوا میں اچھالتے ہیں حکومت کی بق ہوتی ہے کھانے نہیں دیتی سونے نہیں دیتی جینے نہیں دیتی پاکستان کی سیاست جوکسی دوسرے کے ہاتھوں استعمال ہوتی ہے کواور امریکہ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے صفحہ نمبر 110 لکھتے ہیں میں اور کنگ ہنی مون کے لیے دنیا بھر کی سیر کو نکلےکبھی ہوائی جہاز، تق کبھی ٹرین کبھی بحری جہاز تو کبھی بس کبھی ساہیکل تو کبھی پیدل اور چھوٹی سی شینا اس لمبے سفر میں ساتھ کبھی بیمار ہو جاتی تو ہم رک جاتے ہھر چلنے لگتے چلتے چلتے بغداد پہنچے ایران اور عراق جنگ ہو رہی تھی کنگ حسب معمول اس میں دلچسپی لی الٹے سیدھے مشورے دیئے ایران اور عراق دونوں سے کہاکہ ہماری طرف سے لڑو کنگ چونکہ دیوانہ ہے ایک فوجی دستے کے ساتھ چل نکلا اس کا خیال تھا کہ وہ عراقی فوج ہے حالانکہ وہ ایرانی تھے یہ ان کے ساتھ مارا مارا پھرتا رہا کئی دن بعد واپس آیا تو بولا یہ میں کس کی جنگ لڑ رہا ہوں ایران کی یا عراق کی شعیہ کی یا سنی کی مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا میں نے کہا، ہیل ودیو، تم جہاں ہنگامہ دیکھتے ہو شامل ہونے کی کوشش کرتے ہو ناول زبان نہایت سادہ اور عام فہم ہے دلچسپ اتنا کہ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے یہ ناول جدید ناولوں میں بہترین اضافہ ہے
چھاپہ خانے
گزشتہ اتوار کا ذکر ہے۔ راولپنڈی صدر میں کتابوں کے ایک سٹال پر میں نے کیا دیکھا کہ ایک تاریخی نسخہ ہیرے کی طرح کتابوں کے کنکروں سے جھانک رہا ہے۔
یہ سعدی شیرازی کی "گلستان” اور "بوستان” ایک ہی جلد میں محفوظ تھی۔ خاص بات یہ تھی کہ یہ نسخے ستمبر 1881 ء بمطابق ماہ شوال 1298 ہجری میں شائع ہوئے۔ اور شائع کہاں ہوئے منشی نول کشور پریس لکھنئو میں۔
منشی نول کشور عظیم انسان تھے 1858ء میں 22 سال کی عمر میں انہوں نے برصغیر میں نول کشور پریس اینڈ بک ڈپو لکھنئو کی بنیاد رکھی۔ وہ برصغیر میں پہلا پریس لگانے والے پہلے شخص تھے۔
انہوں نے 37 سال کے عرصے میں 5000 کلاسیک چھاپے جو عربی ، فارسی ، انگریزی ، بنگالی ، ہندی ، سنسکرت ، مراٹھی ، پشتو ، پنجابی ، اردو اور دیگر زبانوں میں تھے۔ ادب کی اس بے لوث خدمت پر انہیں سلام ہے۔انہیں Caxton of India کہا جاتا ہے۔
اب آئیے اپنے پبلشرز کی طرف۔ اگرچہ ذاتی طور پر میرا اس طبقے سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ بیشتر میرے ملنے والے ہیں۔ مگر جس بے رحمی سے یہ کار پردازان چھاپہ خانہ اپنا کاروبار چلاتے ہیں وہ پہلے سے زوال پذیر ادبی معاشرے کو کتاب سے مزید دور کر رہا ہے ۔ گھٹیا ادب فروغ پا رہا ہے اور ادب عالیہ بقول غالب” نقش و نگار طاق نسیاں” ہورہا ہے ۔ ساری دنیا میں لوگ کتاب پڑھتے ہیں ہمارے ہاں موبائیل فون پڑھتے ہیں۔ ساری دنیا میں کتابیں سستی ہیں ہمارے ہاں قوت خرید اس سلسلے میں جواب دے چکی ہے۔
سارا قصور پبلشرز کا نہیں، سراغ اس سے آگے جاتا ہے۔
اپنی نظم "دعا” کا ایک حصہ پیش کرتا ہوں
اے خدا !
اے خدا !!
چھاپہ خانوں کے کھونٹوں سے باندھے ہوئے
پالتو حرف کاروں کے شر سے بچا
پبلشر جن کے راتب میں بےحرمتی ڈال کر دور سے پھینکتا ہے
مگر اشتہا ہے
کہ مرتی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!
وحید احمد
9 اکتوبر 2019
تحریر :محمد تیمور